تازہ ترین
پاکستان میں پائیدار ترقیاتی اہداف
پاکستان نے قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 2016 میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو اپنے قومی ترقی کے ایجنڈے میں شامل کرتے ہوئے پائیدار ترقی کے ایجنڈے 2030 کے ساتھ اپنی وابستگی کااظہارکیا۔ اس کے بعد ملک نے اپنی قومی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں ان اہداف کو شامل کیا اور پاکستان میں SDGs کے نفاذ کے لیے ایک ادارہ جاتی لائحہ عمل تیار کرکے قابل ذکر پیش رفت کی ۔ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر منصوبہ بندی کے اداروں (وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور خصوصی اقدام اور صوبائی منصوبہ بندی و ترقی کے اداروں) کے ساتھ SDGs کے معاون یونٹس قائم کیے گئے تاکہ SDGs کے نفاذ اور اس کی پیش رفت کی نگرانی کی جا سکے۔حکومت نے 2018 میں ایک قومی SDGs لائحہ عمل منظور کیا جو SDGs کو ترجیح دینے اور موثر بنانے کے لیے ایک قومی نظریہ پیش کرتا ہے۔ مقامی طور پر صوبائی SDGs کے لائحہ عمل تیارکیے جارہے ہیں۔ حکومت منصوبہ بندی کے عمل میںSDGs کو مرکزی دھارے میں لانے، ان اہداف کی پھرپور نگرانی اور رپورٹنگ کو یقینی بنانے، سرکاری مختص کردہ رقوم کو SDGs کے ساتھ متوازن بنانےاور متبادل مالیاتی طریقہ کار تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ SDGs کی پیش رفت کو تیز کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال سے فائدہ اٹھانے پر اپنی توجہ دے رہی ہے۔
کہانی
18 June 2020
Pakistan: Further desert locust damage forecast in coming agricultural seasons
The Government of Pakistan’s preliminary estimate of monetary losses due to desert locusts over the two coming agricultural seasons in 2020 and 2021 may range from US$3.4 billion to $10.21 billion.
Locust damage has significantly affected many farmers already, with further significant locust damage forecast at the end of summer.
In late January, the Government of Pakistan declared the desert locust a national emergency and set up the National Action Plan for Desert Locust Control and Surveillance and a high-level National Locust Control Centre.
The Food and Agriculture Organization (FAO) is providing technical advice and procurement support to the Government for locust surveillance and control activities, including locust threat forecasts and control operation strategies.
FAO and the World Food Programme and partners, in coordination with the Government, will access needs in the worst-impacted districts, which have also experienced multiple shocks over the past 18 months, including drought, flash flooding, a cold wave and COVID-19.
The Government of Pakistan needs $372 million over the coming three years in additional funding to survey, control and recover from the locust damage.
FAO launched the Desert Locust Upsurge Global Response Plan 2020, which includes $12.5 million for Pakistan for crisis response, of which only $1.9 million has been funded.
More than 3 million people in Pakistan are facing severe acute food insecurity, with the situation particularly precarious in Balochistan.
It is estimated that approximately 34,000 households will need of emergency livelihood and food-security assistance due to crop losses. Many more people may be indirectly affected by crop losses leading to price rises in key commodities.
1 of 3

کہانی
16 June 2020
A Coordinated Response to Coronavirus
On Wednesday, 11 March 2020, the World Health Organization (WHO) characterized the coronavirus (COVID-19) viral disease a pandemic, but it is a pandemic that can be controlled. Coronavirus (COVID-19) is the infectious disease caused by the most recently discovered coronavirus.
Dr. Tedros Adhanom Ghebreyesus, who heads the UN agency, said, in his statement, “Let me be clear: describing this as a pandemic does not mean that countries should give up.”
The UN Secretary-General urged all countries to take a comprehensive approach tailored to their circumstances – with containment as the central pillar. COVID-19 is affecting thousands of people, impacting countries’ health systems and having widespread social and economic effects. The UN entities working on development, the United Nations Sustainable Development Group, are supporting countries in their preparedness and response plans.
This page convenes sources of information and guidance from the World Health Organization (WHO) and the United Nations (UN) regarding the current outbreak of novel coronavirus (COVID-19).
WHO is working closely with global experts, governments and partners to track the spread and to provide guidance to countries and individuals on measures to protect health and prevent the spread of this outbreak.
To stay up to date with the latest information, please visit:
United Nations Covid-19 Response: https://www.un.org/coronavirus
World Health Organization: https://www.who.int/emergencies/diseases/novel-coronavirus-2019
Latest news on the United Nations’ response: https://news.un.org/en/events/un-news-coverage-coronavirus-outbreak
WHO guidance for countries: https://www.who.int/emergencies/diseases/novel-coronavirus-2019/technical
Coronavirus (COVID-19) Situation: https://experience.arcgis.com/experience/685d0ace521648f8a5beeeee1b9125cd
1 of 3

کہانی
22 May 2023
موجودہ بحران سے نمٹنا: مستقبل کی موسمیاتی آفات کی تیاری اور بحالی کے لیے پاکستان کی مدد
''میں نے اپنی زندگی میں اتنی بڑے پیمانے پرموسمیاتی تباہی نہیں دیکھی''۔یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریس کے تاثرات تھے ،جب انھوں نے ستمبر2022میں اپنی آنکھوں سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھیں۔اس بدترین سیلاب کی وجہ سے ملک کا بہت بڑاحصہ سیلابی پانی میں گھرگیا۔کئی خاندانوں نے اپنے پیاروں کوکھودیا اور اپنے گھروں سے محروم ہوگئے۔انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا ذریعہ معاش تباہ ہوتے دیکھا۔سڑکیں،فصلیں اورسکول سب سیلاب کی نذرہوگئے۔33ملین(3کروڑ30لاکھ)سے زائد افرادمتاثر ہوئے جن میں 80لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
اس موسمیاتی تباہی کے سامنے آتے ہی اقوام متحدہ حرکت میں آگیا۔اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ایک خود مختار ریذیڈنٹ کوآرڈینیشن سسٹم(آر سی) کی موجودگی ناگزیرتھی۔اقوام متحدہ ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹرآفس(یو این آرسی او)نے اس امرکا ادراک کرتے ہوئے فی الفورمربوط کاوشوں پرتوجہ دی اورپاکستان اوردیگرجگہوں پر اقوام متحدہ کی ٹیم اوردیگر شراکت داروں کویکجاکیا تاکہ سیلاب کے بعد کی جانے والی حکومتی کوششوں میں اس کا ساتھ دیا جاسکے۔
مشکل وقت میں اکٹھے ہونا
پاکستان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ ہونے کے ناطےیواین ریذیڈنٹ اینڈہیومینٹرین کوآرڈینیٹرنے مربوط کاوشوں کے لیے روابط کے حوالے سے ون اسٹاپ شاپ کا کرداراداکیا۔پاکستان فلڈرسپانس پلان 2022 کی وجہ سے تمام شراکت داروں نے کسی بھی رکاوٹ کے بغیر مل کرکام کیا،ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کیے بغیراقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو مقامی نیٹ ورکس سے مستفید ہونے اورمختلف صوبائی محکموں کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنایا۔
سیلاب سے متاثرہ آبادیوں کی مدد اوربحالی کے کاموں میں شفافیت اور جوابدہی کے لیے انھوں نے مقامی حکومتوں کے دو اداروں کو مانیٹرنگ کے کا م میں مکمل معاونت فراہم کی۔ورلڈبینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کےساتھ اشتراک وتعاون کی بدولت انسانی ہمدردی،بحالی اورتعمیرنو جیسے کاموں کے لیےاقدام بہت حوصلہ افزا رہا۔
اقوام متحدہ کی بھرپور سپورٹ کی وجہ سے بڑے ڈونرز/عطیہ دہندگان نےا مداد اور بحالی کے کاموں میں بھرپوردلچسپی لی۔سیلاب متاثرین کے لیے اقوام متحدہ نے 2022-23کے دوران 816ملین ڈالرامدادکی جو اپیل کی،اس کا تقریباً 60فیصدوصول ہوا۔ایک سال کے دوران ،اقوام متحدہ اوراس کے شراکت داروں نے7.5ملین افرادکوکھانا،صاف پانی،صفائی ،عارضی پناہ گاہوں،موبائل ہیلتھ اینڈنیوٹریشن کلینک،عارضی تعلیمی مراکز،بچوں اورخواتین کی معاونت اورحفاظت کے لیے خدمات،اورزرعی پیداوارجیسی سہولیات فراہم کیں۔خاندان اپنے گھروں کی تعمیر نوکررہے ہیں،متعلقہ آبادیاں اپنے ذریعہ معاش کوبحال کررہی ہیں۔
لیکن ابھی بھی ایک طویل سفردرپیش ہے کیونکہ مون سون کا نیا سیزن سر پر ہے ۔
سروں پرمنڈلاتے خطرات
مارچ 2023کے اوائل تک ،کم وبیش 18لاکھ افرادسیلابی پانی میں گھرے ہوئے تھے۔آر سی او کے سربراہ کے طور پرسیلاب کے بعدامدادی کارروائیوں کے دوران میں نے بہت سے کرداروں کا مشاہدہ کیاجس میں 27سالہ عبدالرشید اور 10افراد پر مشتمل ان کا خاندان بھی شامل تھا۔خیرپورسندھ سے تعلق رکھنے والے کسان عبدالرشید کی کھڑی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں۔ان کے کھیتوں میں تاحال پانی کھڑا ہے،ان کا گھرتباہ ہوچکاہے،وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک خیمے میں زندگی بسرکرنے پرمجبورہیں۔عبدالرشید پانی سے گھری زمین میں بمشکل گزارے لائق سبزیاں اُگارہے ہیں لیکن وہ ابھی تک اپنی زمین میں باقاعدہ بوائی نہیں کرسکے۔۔۔رشیداُن بےشمار کسانوں میں سے ایک ہے جوسیلاب کی وجہ سے موسم سرماکی فصلیں کاشت نہیں کرسکے،ان کے پاس زرعی ادویات،بیجوں وغیرہ کا بھی فقدان ہے۔فوڈ سکیورٹی اورزرعی شعبے نے 70لاکھ سے زائدلوگوں کی معاونت کی ،لیکن بہت سے کسانوں کوموسم گرما کی فصلوں کی بوائی کے لیے معاونت کی ضرورت ہے،جس کا موسم ابھی ابھی شروع ہوا ہے ۔۔
رشید جیسے بہت سے خاندان خود کوایک اورموسمیاتی تباہی کا سامنا کرنے کے لیے تیارکررہے ہیں۔ان کا خوف بے بنیاد نہیں کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اورقدرتی آفات جیسے خطرات سے دوچارممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اقوا م متحدہ محض امدادی کاموں تک محدودنہیں رہا بلکہ وہ ایسی صورتحال کے طویل المدتی حل کے لیے کام کررہا ہےاورموافق ماحول اورفوری موسمیاتی اقدام کرنے کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے۔
لیونگ انڈس: استحکام کے لیے ایک طویل المدت حل
لیونگ انڈس اقدام سب سے بہترین حل ہے۔حکومتی سربراہی میں اس اہم اقدام کو اقوام متحدہ،ڈونرز،نجی شعبے اورسول سوسائٹی کی بھرپورحمایت حاصل ہے۔لیونگ انڈس کا مقصددریائے سندھ کے قدرتی ماحول کی بحالی ہے۔جس میں ایسے منصوبوں پرتوجہ دی جائے گی جن سے مضبوط آبادیوں کی تشکیل اور دیرپا ذریعہ معاش کوفروغ مل سکے۔
پاکستان کی تاریخ کے اس سب سے بڑے ماحولیاتی منصوبے لیونگ انڈس پر11سے17ارب ڈالرکی لاگت آئے گی اور اس کے تحت 25موسمیاتی اقدامات کیے جاسکیں گی ۔لیونگ انڈس خطرے سے آگاہی کے لیے اقوام متحدہ کے پائیدارترقی کے تعاون کا فریم ورک برائے 2023-2027کامرکز ومحورہے۔یہ اقوام متحدہ کے اس اصلاحاتی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے جوریذیڈنٹ کوآرڈینیٹرکی زیرقیادت اقوام متحدہ کی ٹیم کوایسے حل پرعملدرآمدکے قابل بناتا ہے جو فوری انسانی ہمدردی کے کاموں اوردیرپا پائیدارترقی کے درمیان فرق کو ختم کرتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹرکی معاونت اور پورے ملک میں پھیلی یواین ٹیم کے لیےلیونگ انڈس کامنصوبہ گزشتہ برس کے سیلاب کے نتیجے میں موسمیاتی تباہی کے اقدام سے کچھ بڑھ کر ہے ۔یہ مستقبل میں مضبوط آبادیوں اوردیرپاذرائع معاش کے حوالے سے پاکستان کے لیے روڈمیپ اورلائحہ عمل کے جیسا ہے ۔یہ ہمیں یادکراتا ہے کہ اب کچھ کرگزرنے کا وقت ہے ۔
اس بلاگ کے لکھاری شاہ ناصرخان اقوام متحدہ ریذیڈنٹ کوآرڈینیشن آفس میں ٹیم لیڈراورسینئراسٹریٹیجک پلانرکے عہدے پرفائز ہیں۔اس بلاگ میں انھیں اقوام متحدہ پاکستان کے انفارمیشن سنٹر کی معاونت اور یواین ڈی سی او کی ایڈیٹوریل سپورٹ بھی حاصل رہی ہے۔براہ کرم مزید معلومات کے لیے دیکھیں:Pakistan.un.org.
1 of 5
کہانی
03 April 2023
پاکستان میں حاليہ سيلاب کے بعد بحالی کے آثار
پاکستان میں گذشتہ سال آنے والے سیلاب نے جو تباہی مچائی اسکی نظیر نہیں ملتی۔ صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ صوبہ میں زراعت کا سب سے زیادہ انحصار مال مویشیوں پر ہے۔ سیلاب میں بڑی تعداد میں ہونے والے جانوروں کے نقصان نے چھوٹی سطح کے کسانوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ۔جنہیں پہلے ہی ناگزیر حالات کا سامنا تھا۔
ان کسانوں کوکن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ہم شائد انکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ تاہم شدید مشکل حالات میں بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا انکا عزم قابلِ تحسین ہے۔
س وقت کا ذکر کرتے ہوئے فیزور جسکا تعلق ضلع لسبیلہ کے گاوں بوہار سے ہے اپنے آنسو روک نہیں پاتا ۔ ’سیلاب میں میرا سب کچھ بہہ گیا ۔ میرا گھر، میری زرعی زمین، میری کھڑی فصلیں ، سب کچھ پلک جھپکتے ہی غائب ہوگیا۔ اس سب کے بیچ میں میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کی بات ان جانوروں میں بیماری کا پھیلاؤ تھا جو سیلاب میں بچ گئے تھے۔ ہماری خوراک اور آمدن کا ایک بڑا ذریعہ جانور ہیں۔ مشکل حالات سے نپٹنے اور اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے لئے یہ یقینی بنانا ضروری تھا کہ میرے جانور تندرست ہوں۔جانوروں میں بیماری پھیلنے سے میری آمدن متاثر ہونا شروع ہوگئی۔ ’
فیروز کی طرح کئی اور کسانوں کو اسی قسم کے حالات کا سامنا تھا۔ کلی گوالز سامیزئی، ضلع قلعہ سیف اللہ کے رہائشی حاجی امیر کی کہانی بھی فیروز سے ملتی جلتی ہے ’ ہماری گزر بسر مویشیوں سے ہوتی ہے۔ اسی لئے ہمارے جانوروں کی صحت ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ میرے پاس کچھ بھیڑیں ہیں۔ سیلاب کے بعد اس بات کا خطرہ تھا کہ انہیں متعدی بیماریاں نہ آ گھیریں۔ ایک بھیڑ کے پاؤں پر دنبل نکل آیا جس سے اسکی آنکھ میں سوزش اور سوجن ہوگئی۔ یہ میرے لئے بہت پریشانی کی بات تھی۔’
ان جانوروں کو ویکیسن لگانے کے لئے مالی وسائل درکار تھے جنکا انتظام کرنا سیلاب سے ہونے والے نقصان کی وجہ سے مشکل تھا۔ فیروز، حاجی امیر اور ان جیسے کئی اور کسانوں کی مدد کے لئے ادارہ خوراک و زراعت برائے اقوام متحدہ(ایف اے او) نے ادارہ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمینٹ، حکومت بلوچستان کے قریبی اشتراک اور تکنیکی تعاون پروگرام (ٹی سی پی) اور سینٹرل ایمرجینسی رسپانس فنڈ (سرف) کی مالی معاونت سے قلعہ سیف اللہ اور لسبیلہ میں جانوروں کو ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کیا۔
بروقت مدد کے لئے دونوں کسان ایف اے او کے شکر گزار ہیں۔’ ویکسین لگانے والی ٹیم کا ہمارے گاؤں میں آنا بہت تسلی بخش تھا۔ ایف اےاو نے مجھے اور میرے جیسے کئی کسانوں کودوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کا موقع دیا ہے۔ ویکیسن لگانے کے بعد میرے جانوروں کی صحت بحال ہورہی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ میں انکو اچھے داموں فروخت کر سکوں گا۔’ چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے فیزوز نے بتایا۔
ان کسانوں کی اپنے جانوروں کو متعدی بیماریوں سے بچانے کی استعداد اور مزاحمت بڑھانے سے نا صرف ان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی آمدن بڑھا سکیں بلکہ انکے گھرانے کی غذائی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔
سیلاب سے آنے والی تباہی بے تحاشا اور بے اندازہ ہے۔ بوہار اور کلی گوالز سامیزئی سیلاب سے متاثر ہونے والے صرف دو گاؤں ہیں۔ ان جیسے کئی ایسے گاؤں، دیہات، گوٹھ، قصبے اور شہر ہیں جنکو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔
1 of 5
کہانی
03 February 2023
پاکستان میں بہتر نظامِ تعلیم کی ترویج
یہ کوہاٹ میں واقع ایک مخلوط پرائمری سرکاری اسکول- جی پی ایس کاہی بزید خیل میں ماہِ جون کے موسمِ گرما ، بروز جمعرات ایک روزمرہ کی دوپہر ہے۔ ضلع کوہاٹ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوب میں واقع ہے۔ مختلف کلاسوں میں طلباء لگن کے ساتھ اپنے اپنے نصاب کے مطابق حصولِ علم میں مصروف ہیں۔ ان دنوں علاقے کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے لیکن کمروں میں تنصیب کردہ پنکھوں اور بلب کی وجہ سے یہاں کا ماحول خوشگوار اور روشن ہے۔ صرف دو سال قبل ایسے موسم کی شدت کے باعث اسکول کی انتظامیہ کے پاس ان دنوں اسکول بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ انتہائی گرمی کے دنوں میں حالات اسکول کے طلباء اور اساتذہ دونوں کے لیے خطر ناک حد تک ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔
جی پی ایس کاہی بزید خیل میں پڑھانے والے ایک استاد عابد سعید بتاتے ہیں "یہاں شدید گرمی کے باعث ہمارے حالات بہت سخت اور دشوار تھے ۔ صرف ہم یعنی عملے کے ارکان اور یہاں زیرِ تعلیم بچے ان مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں جن کا ہم نے سامنا کیا۔"
ماضی میں شدید گرمیوں کے دوران جب اسکول کھلے ہوتے تھے تو عابد اپنی کلاس کے بچوں کو کمرے سے باہر لے جا کر درخت کے سائے تلے تدریس کا عمل جاری رکھتے تھے۔ ان وجوہات کے باعث بچے اسباق سے اپنی توجہ کھو دیتے جس کا نتیجہ اسکول سے بڑی تعداد میں غیر حاضری کی صورت میں نکلتا تھا۔
پاکستان کے زیادہ تر سرکاری سکولوں میں بچوں کے کم اندراج کے علاوہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے والوں کی کثیر شرح ایک مسئلہ ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں خاص طور پر شدید ہے، جہاں دیہی اسکولوں میں اکثر بجلی جیسی اہم بنیادی سہولیات کا قفدان ہے۔
اصلاحات کا نفاذ
جی پی ایس کاہی بزید خیل صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلا اسکول تھا جہاں 2019 میں کم لاگت پر تیار کردہ بجلی کی سہولت فراہم کی گئی۔ یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں 1,200 سے زائد اسکولوں میں تعلیم کی خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے ایک اہم منصوبے کا حصہ تھا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم شہرام خان تراکئی کہتے ہیں، "یہ منصوبہ خطے میں ابتدائی اور ثانوی درجہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کا حصہ ہے۔ ہم بچوں کے پاس اسکول میں حصولِ تعلیم کے لیے مناسب حالات اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔"
اسکولوں میں طلباء کی حاضری کے تناسب میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جہاں نئے داخلوں میں پانچ فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جی پی ایس کاہی بزید خیل میں یہ شرح مزید بہتر ہے جہاں 2018 میں 227 طلباء کے مقابلے میں 2021 کے دوران طلباء کی تعداد 265 ہوچکی تھی۔
اسکول کی ایک ننھی سی طالبہ ، فریال کا کہنا ہے، "اب ہمیں اسکول آکر پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب پنکھے چلتے ہیں تو سبق یاد کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔"
اور اسکولوں کے اساتذہ کے مطابق روشن اور ٹھنڈے کلاس روم بہتری کا باعث بنے ہیں، جہاں ان کے طلباء کے رویوں اور تعلیمی نتائج میں نمایاں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عابد نے بتایا، "ہم بہت سکون سے اپنی تدریسی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں ۔ بچے بہت جوش و خروش کے ساتھ اسکول آتے ہیں اور ہمارے تعلیمی معیار میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔"
ماحول دوست توانائی
اگرچہ ان اسکولوں میں بجلی کی فراہمی طلباء کو حصولِ تعلیم میں ایک بہتر ماحول فراہم کرنے میں مدد کر رہی ہے، اس بجلی کا ایک کم خرچ اور پائیدار ذریعے سے حصول بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ان اسکولوں کے لیے موجودہ ذریعہ توانائی ، روایتی گرڈ سے حاصل کردہ بجلی کے مقابلے میں تقریباً 2,250 ٹن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کرے گا ۔
پاکستان میں درجہ حرارت میں عالمی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ اضافے کا سامنا ہے اور یہ ملک شدید موسمی تغیرات سے تیزی سے متاثر ہو رہا ہے ۔ یہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پائیدار اور لچکدار بنیادی ڈھانچے کی طرف منتقلی کی فوری ضرورت واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے۔
یو این اوپس کی پاکستان میں سربراہ میریسیا زپاسنِک کہتی ہیں، "پاکستان کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جس کے باعث مساوی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔"
یو این اوپس کے پروجیکٹ منیجر – بینوئٹ روزنوئر نے کہا"پاکستان کے دیہی علاقوں میں قدرتی ذرائع سے تیار کردہ بجلی کے حصول میں مشکلات حائل ضرور ہیں۔ اس کے لیے ہم نے دور دراز اور الگ تھلگ مقامات کا انتخاب کر کے مجموعی طور پر دس ہزار سے زائد سولر پینلز وہاں پہنچائے۔ ان اضلاع میں شمسی توانائی کی تیاری انتہائی کم ٹیکنالوجی والے ماحول میں اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کاحصول تھا۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے ٹھیکیداروں کی تربیت، مقامی صلاحیت میں اضافےاور تکنیکی مسائل کے حل کے لیے ناقابل یقین کوششوں کی ضرورت تھی۔"
بینوئٹ کے مطابق ان کی کوششیں نتیجہ خیز رہیں۔ اسکولوں کو اب نہ صرف بجلی کا ایک باسہولت ذریعہ فراہم کر دیا گیا ہے، بلکہ اسکول کی انتظامیہ اب خود شمسی نظام کو چلانے اور اس کی بنیادی دیکھ بھال کی صلاحیت کی حامل ہو چکی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچے آنے والے سالوں تک بہتر تعلیمی حالات سے مستفید ہوتے رہیں۔
منصوبے کی تفصیل
سولر اسکولز پراجیکٹ کو مالی اعانت، برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) اور سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے ذریعے فراہم کی گئی ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اسکولوں میں زیرِ تعلیم تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار طلباء اور وہاں تدریسی ذمہ داریاں انجام دینے والے چار ہزار سے زائد اساتذہ مستفید ہو رہے ہیں۔
یو این اوپس نے صوبہ خیبرپختونخوا کے ایلی منٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ شراکت میں صوبے کے سات انتہائی پس ماندہ اضلاع: بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کرک، کوہاٹ، لکی مروت اور ٹانک کے 1,240 اسکولوں میں شمسی توانائی کے آلا ت کی خریداری، وہاں تک ترسیل اور تنصیب کا بندوبست کیا۔
یو این اوپس کے 8.5 امریکی ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں پیرنٹ – ٹیچر کونسلز کے چار ہزار سے زائد ارکان کو شمسی توانائی کے آلات کو چلانے اور ان کی روز مرہ تکنیکی دیکھ بھال کرنے کی تربیت کی فراہمی بھی شامل تھی۔
کہانی: UNOPS
1 of 5

کہانی
02 February 2023
پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کو امدادکی فراہمی
پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ افراد 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1,700 افراد موت کا شکار ہوئے جبکہ تقریباً 80 لاکھ بے گھر ہوگئے۔ اس وقت دو کروڑ سے زیادہ متاثرین انسانی امداد کے منتظر ہیں۔
سری لنکا میں واقع یو این اوپس کے کثیر الملکی مرکز کے ڈائریکٹر چارلس کیلانن کے مطابق اس انتہائی شدت کے سیلاب سے پاکستان کو موسمیاتی تغیر کے باعث لاحق سنگین خطرات کی نشان دہی ہوئی ہے۔ چارلس نے کہا، "اب ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس تباہی سے پہلے آنے والی معاشی آزمائشوں کا بھی مقابلہ کر رہا ہے۔"
عالمی بنک سےسات ملین ڈالر سے زیادہ کی فنڈنگ کے ساتھ، یو این اوپس نے بیس لاکھ مچھر دانیاں اور پچیس ہزار سے زیادہ خیموں کی خریداری میں حکومت کو تعاون فراہم کیا۔ یہ امدادی سازو سامان حکومتِ سندھ کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو پہنچا دیا گیاہے۔
عالمی بینک کے سیکٹر لیڈر- عابد خلیل نے کہا، "یو این اوپس نے ہم منصب افراد اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے کم سے کم مدت میں حقیقی نتائج کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی اداروں کی خدمات حاصل کیں۔ ان اداروں کی جانب سے تعاون اور امداد سے تباہ کُن سیلاب سے بحالی کے اہم سنگِ میل کا حصول ممکن ہوا۔"
اس بحران کے دوران ایسا بھی ہوا کہ ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب تھا۔ اس وقت بھی صوبہ سندھ کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر اضلاع سے بھی سیلابی پانی جمع ہوجانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ جمع شدہ پانی سے ملیریا، اسہال، جِلدی امراض اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے شکار ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یو این اوپس کی جانب سے انتظام کردہ ادویہ اور دیگر امدادی سامان حکام کو سیلاب سے پیدا ہونے والی آزمائشوں سے نمٹنے میں مدد گار ہوں گے۔
آنے والے وقت میں اس ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی ممکنہ تباہی سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن تعاون کی فراہمی بہت اہم ہے۔ یو این اوپس، حکومت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ یکجا ہوکر مستقبل میں متوقع آزمائشوں کے دوران مدد کے لیے تیار ہے"، چارلس کیلاٹن نے کہا۔
کہانی: UNOPS
1 of 5

کہانی
14 September 2022
ہمارے ہیروز ۔۔ سیلاب زدہ علاقوں کی کہانیاں
پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین سیلابی پانی میں گھری ہوئی ہے۔ سندھ کا ایک تہائی حصہ (آبادی بشمول رقبہ) تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔ 1400سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے اور3کروڑ30لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں اور اپنی تمام قیمتی اشیاء کھودی ہے۔ مال مویشی اورکھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوچکی ہیں۔ ان کے پاس نہ کھانا ہے اور نہ پینے کا پانی اور نہ ہی سرچھپانے کے لیے سائباں۔انہیں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں ،ڈینگی اورغذائی قلت جیسے سنگین مسائل کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہیں صحت عامہ اور تعلیم جیسی سہولیات تک کوئی رسائی حاصل نہیں اورجو زندگی وہ گزاررہے تھے، اب اس سے محروم ہوچکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کے بقول '' یہ اعدادوشمارکی بات نہیں بلکہ یہ ان لوگوں اور کسانوں کی بات ہے جنہیں اپنی فصلوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں، یہ ان لوگوں کی مسئلہ ہے جنہیں اپنے پیاروں کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑرہا ہے، یہ ان کی بات ہے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے آشیانے بہہ گئے، انہیں اپنے مویشیوں سے ہاتھ دھونا پڑے، یہ ان کی بات ہے جن کے پاس اپنے قرض ادا کرنے کے لیے اب کوئی رقم نہیں جن سے انہوں نے دوبارہ کاشتکاری کے قابل ہونا تھا۔ یہ ان لوگوں کی بات ہے جنہیں آپ میں سے ہرشخص بچانے کی کوشش کررہا ہے، خوفناک سیلاب سے محفوظ رہنے میں ان کی مدد کررہا ہے۔''
''میں یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے آئی ہوں، یہ میرا جنون ہے''۔ ڈاکٹر سمیرا عباسی
ڈاکٹرسمیراعباسی سیلاب کے وقت سے سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ ہیڈکوارٹراسپتال میں میڈیکل فیلڈآفیسر کے طورپرفرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ تین بچوں کی ماں ہونے کے ناطے انہیں اس امرکا ادراک ہے کہ صورت حال ان کے لیے کتنی کٹھن ہے۔ اسپتال سے گھر دُور ہونے کی وجہ سے انہیں سیلابی پانی سے گزرکرآنا ہوتا ہے ۔ یہ سیلانی پانی اکثران کے آٹورکشہ میں بھی آجاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ان کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ ایک وقت تھا،جب ان کا اپناگھرسیلاب کی زد میں آگیا تھا لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے،انہوں نے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے سیلاب متاثرین کی طبی ضروریات کا خیال رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میں یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے آئی ہوں، یہ میرا جنون ہے''۔
''میں نے تقریباً 300 قیمتی جانیں بچائیں''۔ جناب محمد شفا اریجو
جب سیلاب کی بے رحم موجیں لاڑکانہ سے ٹکرائیں تو سیکرٹری یونین کونسل انواراداب جناب محمد شفا اریجو بے خوف ہوکر بے لوث جذبے کے ساتھ لوگوں کی مدد کےلیے آگے آئے۔انہوں نے منہ زور سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والے 300 جھگی نشینوں کو اپنی جان خطرے میں ڈال کروہاں سے نکالا۔ پھرکشتیوں کی مدد سے انہیں قائد عوام انجینئرنگ یونیورسٹی میں منتقل کیا۔ انہیں سیلاب سے متاثرہ ہزاروں لوگوں کو کھانا فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ۔
ڈاکٹر سمیرا عباسی ،شفا اریجواوران جیسے بہت سے لوگوں نے اس غیر معمولی بحرانی کیفیت میں عزم وہمت، ایثار اوریکجہتی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا ہے۔ ہیبت ناک سیلابی ریلوں نے ہرسوتباہی کی داستانیں رقم کیں لیکن اس عرصے میں ان بہادرمردوخواتین نے اپنی ہمت وحیثیت سے بڑھ کرکام کیا، اور بروقت امداد کے ذریعے ہزاروں قیمتی جانوں کو بچایا۔
ساری دنیا کوان بہادرمردوخواتین کے دست وبازو بننا چاہیے۔ دنیا کو ان معصوم لوگوں کی مددکے لیے آگے آنا ہوگا جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ایسی تباہی کا سامنا ہے ،جس کے لانے میں ان کا کوئی بھی کردار نہیں۔
1 of 5

پریس ریلیز
18 April 2023
میڈیا اپ ڈیٹ: اقوام متحدہ پاکستان، 17 اپریل 2023
بچوں میں شدید غذائی قلت اور عالمی سطح پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر پاکستان میں جان بچانے والے غذائی اقدامات میں مدد کے لئے اقوامِ متحدہ کے فلاحی فنڈ کے تحت 5.5 ملین ڈالر کی رقم مختص
اسلام آباد، پاکستان (17 اپریل 2023) – اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں جسمانی کمزوری کا شکار بچوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو ان علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی ہنگامی سطح کو پہنچ چکی تھی۔
پندرہ متاثرہ اضلاع میں کئے گئے ایک تیز سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 6 سے 23 ماہ عمر کے تقریباً ایک تہائی بچے درمیانی نوعیت کی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 14 فیصد سنگین نوعیت کی شدید غذائی قلت میں مبتلا ہیں جو بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ متاثرہ بچوں میں لڑکیوں کا تناسب لڑکوں سے زیادہ ہے۔ سیلاب کے بعد شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جنہیں علاج کے لیے طبی پیچیدگیوں کے ساتھ اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا ہے کہ سیلاب سے پہلے بھی جسمانی کمزوری کا شکار بچوں کی تعداد ہنگامی سطح کو پہنچ چکی تھی لیکن بہت سی بستیوں میں اس وقت جو صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے وہ پریشان کن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک ملنے والی امداد پر ہم عالمی برادری کے شکرگزار ہیں لیکن ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت باقی ہے تاکہ موت کے خطرے سے دوچار بچوں کی بڑھتی تعداد کو فی الفور بیماریوں پر قابو پانے والی خوراک اور نگہداشت کی فراہمی میں حکومت کی مدد کی جا سکے۔ ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر اقوامِ متحدہ نے کہا کہ ہمیں اس غذائی بحران کا رخ موڑنے کے لئے حکومت کی مدد کرنا ہو گی جو نہ صرف کئی ملین بچوں کے لئے بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرناک اور ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔
ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے اعلان کیا کہ 'سنٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ (سی ای آر ایف)' کی جانب سے ملنے والی 6.5 ملین امریکی ڈالر کی رقم میں سے 80 فیصد سے زائد یعنی 5.5 ملین امریکی ڈالر کی رقم ہنگامی غذائی اقدامات اور غذائی تحفظ کے اقدامات کے لئےاستعمال کی جائے گی۔
5.5 ملین امریکی ڈالر کی اس اضافی رقم سے یونیسیف، عالمی ادارہ خوراک، عالمی ادارہ صحت اور مختلف این جی اوز کو بلوچستان اور سندھ کے انتہائی شدید خطرات سے دوچار علاقوں میں حکومت کی زیرقیادت سیلاب کی جوابی کارروائیوں کے تحت ہنگامی غذائی اقدامات میں مدد دی جائے گی۔ او سی ایچ اے ان سرگرمیوں کی کوآرڈینیشن کے فرائض انجام دے گی اور فنڈز کے مؤثر استعمال کو یقینی بنائے گی۔
سیلاب کی جوابی کارروائیوں کے منصوبہ میں شامل غذائی اقدامات میں سے تاحال صرف ایک تہائی سرگرمیوں کے لئے فنڈز موصول ہوئے ہیں۔ متعدد بستیوں اور حفظانِ صحت کے اداروں میں غذائی بیماری کی جلد نشاندہی، مربوط اقدامات کے ذریعے روک تھام اور علاج معالجہ کے لئے مزید فنڈز کی فوری ضرورت ہے۔ بچوں کو جسمانی کمزوری سے محفوظ رکھنے کے لئے غذائیت بخش خوراک کی باکفایت دستیابی اور رسائی بہتر بنانے کے اقدامات میں اضافہ بھی اشد ضروری ہے۔
گزشتہ سال ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی موسمیاتی آفت کے بعد حکومتِ پاکستان کے زیرِقیادت، اقوامِ متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کی معاونت سے شعبہ غذائی تحفظ و زراعت نے تقریباً 7 ملین افراد کے لئے اورشعبہ غذائیت نے 1 ملین کے لگ بھگ افراد کے لئے جان بچانے والی امداد فراہم کی ہے، لیکن لاتعداد ضرورتیں ابھی بھی پوری نہیں ہو پائیں۔
*ذریعہ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں یونیسیف کا Rapid MUAC Survey
##################
ضروری معلومات برائے مدیران:
انفوگرافکس کے لئے یہاں کلک کریں: bit.ly/401UJtR (ریلیف ویب)
تصاویر کے لئے یہاں ، یہاں اور یہاں کلک کریں۔
سنٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ (سی ای آر ایف) کا تعارف
عالمی سطح پر فلاحی اقدامات میں بنیادی کردار ادا کرنے والا سی ای آر ایف کا شعبہ 'فوری جوابی کارروائی (Rapid Response)' ملکی سطح کی ٹیموں کو کوئی بھی نیا بحران پیدا ہونے پر فی الفور مربوط انداز میں، ترجیحی بنیادوں پر جوابی کارروائیاں شروع کراتا ہے۔ سی ای آر ایف کا شعبہ برائے 'فنڈز کی کمی کا شکار ہنگامی حالات (Underfunded Emergencies) ' امدادی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلانے اور انہیں طویل عرصے تک جاری رکھنے میں مدد دیتا ہے تاکہ کوئی دیگر فنڈز دستیاب نہ ہوں تو انتہائی ضرورت والی جگہوں پر اس کمی کو دور کیا جا سکے۔ یہ ادارہ 2006 میں قائم کیا گیا اور اب تک اقوامِ متحدہ کی 126 رکن ریاستوں اور مبصرین کے ساتھ ساتھ علاقائی حکومتوں، عطیہ دینے والے کارپوریٹ اداروں، فاؤنڈیشنز اور افراد کی بدولت فلاحی سرگرمیوں پر کام کرنے والے پارٹنرز 100 سے زائد ممالک اور علاقائی حدود میں 5.5 ارب ڈالر سے زائد کی جان بچانے والی امداد فراہم کر چکے ہیں۔ امداد وصول کرنے والے کئی ممالک وقت آنے پر سی ای آر ایف کو عطیات بھی دیتے ہیں۔ اس طرح سی ای آر ایف 'سب کے لئے، سب کے ذریعے' کے تصور پر مبنی فنڈ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مزید معلومات کے لئے یو این آئی سی (UNIC) پاکستان سے رابطہ کریں۔:
کیتھرین ویبل: catherine.weibel@un.org ، +92 300 854 0058
ماہ وش علی: mahvash.ali@un.org ، +92 319 0712828
1 of 5
پریس ریلیز
15 March 2023
میڈیا اپ ڈیٹ-: اقوام متحدہ پاکستان، 14 مارچ 2023
زراعت سے منسلک خواتین کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی لازمی ہے
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ صنفی بنیادوں پر درپیش رکاوٹوں کو پہچانا اور دور کیا جائے جو کہ وسائل اور ٹیکنالوجی تک خواتین کی رسائی کو محدود کرتی ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے اس سال کا مرکزی خیال ’ ڈیجٹ آل: صنفی برابری کے لئے جدت اور ٹیکنالوجی’ نے خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور انکے لئے یکساں مواقعوں کی فراہمی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
جیسا کہ یہ ہم سب کے علم میں ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور خواتین کاشتکاروں کو متاثر کررہی ہیں ،ایسے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال انکو ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور کاشتکاری کے زیادہ مزاحمتی نظاموں کو اختیار کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔
فلورنس رول، پاکستان میں ادارہ خوراک و زراعت، اقوام متحدہ(ایف اے او) کی نمائندہ نے انٹرنیشنل واٹر مینیجمینٹ انسٹیٹیوٹ ( آئی ڈبلیو ایم آئی) کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور آلات تک دسترس کی اہمیت کو اجاگرکیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت سے وابسطہ خواتین اورلڑکیاں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اسلئے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انکے لئےڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے مواقع کو بڑھایا جائے تاکہ انکو موسم، زمین کی نوعیت، حالت اور فصل کی بہترنگہداشت کے متعلق تازہ ترین معلومات مل سکیں۔ اس سے انکو بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ نتیجتاً انکو نا صرف غذائی تحفظ حاصل ہو سکے گا بلکہ موسمیائی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر مزاحمتی حکمت عملی تیار کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
فلورنس رول کے خیال میں موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی سے چھوٹی سطح کی کاشتکار خواتین کو اپنی فصل سے متعلق بہتر فیصلے کر نے کی استعداد بڑھانے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سالوں میں زرعی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ اس شعبے میں خواتین کے روشن مستقبل اور قائدانہ کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے جدید اور اختراعی ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت سے منسلک خواتین کو خودمختار بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ درپیش مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں اور زراعت کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر سکیں۔
خواتین کے عالمی دن سے حوالے سے ایف اے او نے زراعت میں خواتین کے کردار پر ایک پینل مباحثے کا اہتمام کیا۔ یہ مباحثہ سندھ زرعی یونیورسٹی کی جانب سے ’بائیو ڈایورسٹی آف ایرڈ زون’ کےموضوع پر کرائی گئی دو روزہ عالمی کانفرنس کے دوران منعقد کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس سندھ زرعی یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس عمر کوٹ میں ہوئی۔ پینل ڈاکٹر رضوانہ ایچ رضوانی ، ڈائریکٹر ہمدرد یونیورسٹی،ڈاکٹر شبانہ سرتاج، ایسوسی ایٹ پروفیسر، انگریزی ادب، سندھ یونیورسٹی جام شورو، اور ڈاکٹر ریما وسٹرو، لیکچرر ایگرونومی، سندھ یونیورسٹی ، عمر کوٹ پر مشتمل تھا۔ مباحثے کے دوران پائیدار ترقی کے لئے زراعت میں صنفی برابری کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ خواتین کو کاشتکاری کے جدید اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق زراعت کو ڈھالنے کے طریقے سکھانے پر ایف اے او کے کردار کو بھی سراہا گیا۔ مختلف اضلاع میں ایف اے او کے مختلف منصوبوں سے فائدہ اٹھانے والی خواتین نے بھی اس مباحثے میں شرکت کی اور شرکاء کو بتایا کہ کس طرح ایف اے او کی جانب سے انکی بہتری کے لئے کی جانے والی کوششیں انکو گھریلو اور کمیونٹی سطحوں پر خودمختار بنانے میں مدد کر رہی ہیں۔
ایف او اے نے کوئٹہ میں بھی یورپی یونین کی مالی معاونت سےچلائے جانے والے’ گروتھ ایڈوانسمنٹ اینڈ سسٹینیبل ڈویلپمینٹ ( گراسپ)’ منصوبے کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا۔اس کا اہتمام محمکہ برائے ترقی خواتین، حکومت بلوچستان، یواین ویمن، یواین ایف پی اے اور یواین ڈی پی کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔تقریب میں متعلقہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا تاکہ زراعت میں خواتین کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اہمیت پر بات کی جاسکے۔ اپنے مختلف منصوبوں کے ذریعے ایف اے او نےڈیجیٹل خواندگی پر خاطر خواہ تربیتی پروگرام منعقد کئے ہیں اور مرد اور خواتین کاشتکاروں کو ٹیبلیٹس فراہم کی ہیں تاکہ وہ جدید معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں، بروقت اور درست فیصلے کرسکیں اور اپنی مصنوعات کو بہتر قیمت پر فروخت کرسکیں۔
روبینہ وہاج، سینیئر لینڈ اینڈ واٹر آفیسر ایف اے او نے ریڈیو پاکستان کے ایف ایم چینل
87.6
کے لائیو پروگرام میں بھی شرکت کی اور پاکستان میں زراعت کی ترقی کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک خواتین کی رسائی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
برائے مزید معلومات
شارق لاشاری
0321-3082691
Shariq.aziz@fao.org
1 of 5
پریس ریلیز
06 March 2023
میڈیا اپ ڈیٹ-2: اقوام متحدہ پاکستان، 3 مارچ 2023
زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے ایف اے او، آئی ایف سی، اے ڈی بی اور بی او آئی کی جانب سے سیمپوزیم کا اہتمام
اسلام آباد: ادارہ خوارک و زراعت اقوام متحدہ (ایف اے او) کی جانب سے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایگریکلچر انویسمنٹ سیمپوزیم کا اہتمام کیا گیا۔ زراعت میں سرمایہ کاری سے متعلقہ تمام افراد جن میں نجی سرمایہ کار، پالیسی ساز، کسان، بین الاقوامی اور مقامی سماجی تنظیموں کے نمائندے، اور تحقیق کار شامل تھے کو مدعو کیا گیا تھا۔ سیمپوزیم کا مقصد تبادلہِ خیالات اور تجربات تھا ۔ اسکے علاوہ اسکے ذریعے نجی سرمایہ کاروں اور مالی اداروں کو میچ میکینگ اور باہمی سرمایہ کاری کے مواقع جاننے کا بھی موقع ملا۔ سیمپوزیم کا اہتمام ایف اے اونے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی)، ایشیائی ترقیاتی بینک( اےڈی بی)اور وفاقی اور صوبائی انویسمنٹ بورڈز ک اشتراک سےکیا تھا۔ ۳۰۰ سے زائد شرکاء نے سیمپوزیم میں شرکت کی۔
سمپپوزیم کے تحت زرعی شعبے میں سرمایہ کاری، پارٹنر شپ اور اشتراک سازی کی راہ ہموار ہوئی تاکہ زراعت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہونے کے ساتھ ساتھ زراعت کی پائیدار بنیادوں پر ترقی کی راہ کو ہموار کیا جاسکے، سب کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکے۔
کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کی باہمی ملاقاتوں اور بات چیت کے لئے بوتھ قائم کئے گئے تھے۔ انہوں نے آپس میں تجربات اور خیالات کا تبادلہ کیااور دستیاب ٹیکنالوجی اورمنافع بخش مصنوعات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے کے طور پر باہمی سرمایہ کاری کے کئی معاہدے طے ہوئے یا ان کی یقین دہانی کرائی گئی ۔
پروفیسر احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمینٹ نے نجی سرمایہ کاروں، مالی اداروں اور متعلقہ حکومتی اداروں کے مل کر زراعت کے شعبے میں کام کرنے کی ضرورت کو پر زور دیا۔ کیونکہ زرعی ترقی کے ان گنت معاشی فوائد ہونے کے ساتھ اس سے غربت کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایف اے او کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے کلسٹر بیسڈ ڈویلپمینٹ کو اجاگر کیا جو کہ حکومت کے ویژن ۲۰۲۵ کا حصہ تھی تاکہ زرعی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے اس طریقہِ کار کو مستقبل کی کنجی قرار دیا۔ انہوں نے اس ضمن میں مائیکل پورٹر کے شہرہِ آفاق کام قوموں کے مسابقتی فائدے کا بھی ذکر کیا۔
ایف اے او کا انویسمنٹ سینٹر مالی اداروں کے ذریعے نجی شعبے کے ساتھ کام کرتا ہے تاکہ زرعی اجناس میں موثر سرمایہ کاری کی جاسکے۔ یہ مالی اداروں اور ممبر ملکوں کے مابین پُل کا کام سرانجام دیتا ہے تاکہ ملکی سطح پر بھرپور اثر کے لئے سرمایہ کاری کو بڑھاوا دیا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار محمد منصوری، ڈائریکٹر ایف اے او انویسمنیٹ سینٹر نے کیا۔
نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے سامنے آٹھ زرعی اجناس، سیب، مرچ، کھجور، آم، پیاز، ٹماٹر، چاول اور گائے کے گوشت میں سرمایہ کاری کے مواقع اور اقتصادی فوائد کو پیش کیا گیا۔ اسی طرح لیونگ انڈس منصوبے کے تحت شروع کئے گئے ۲۵ پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ یہ طریقہِ کار ایف اے او کے ہینڈ ان ہینڈ منصوبہ سے بہت مطابقت رکھتا ہے جسکے تحت غذائی نظام کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ غربت کا خاتمہ (ایس ڈی جی ۱)، بھوک اور غذائی قلت کا خاتمہ (ایس ڈی جی ۲) اور عدم مساوات میں کمی (ایس ڈی جی۱۰) کیا جاسکے۔
افتتاحی سیشن کے دوسرے شرکاء میں فلورنس رول، پاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ، خالد گردیزی، ایڈیشنل سیکرٹری، منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، ذیشان شیخ، کنٹری مینیجر آئی ایف سی، محمد فاروق، جوائنٹ سیکرٹری، وزارتِ ماحولیات، یاسمین صدیق، ڈائریکٹر اے ڈی بی اور عامر ارشاد، ہیڈ آف پروگرام (ایف اے او) شامل تھے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے کو درکار مسائل اور انکے حل کو اجاگر کیا کہ کس طرح اصلاحات، پالیسی سازی اور ممکنہ سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان میں زراعت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے بالخصوص جبکہ اس شعبے کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔
زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری سے متعلقہ موضوعات پر دو پینل ڈسکشنز کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جسمیں زراعت کے شعبے میں کامیاب سرمایہ کاروں نے اپنے تجربات بیان کئے اور شرکاء کو بتایا کہ کس طرح زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے اور زراعت کی ترقی کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد لی جا سکتی ہے۔ یہ پینل ڈسکشنز اے ڈی بی اور آئی ایف سی کی معاونت سے کی گئی۔ جمیل قریشی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنرل، بورڈ آف انویسمنٹ ، حکومتِ پاکستان نے اختتامی کلمات ادا کئے اورمستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔
برائے مزید معلومات
شارق لاشاری
0321-3082691
Shariq.lashari@fao.org
1 of 5
پریس ریلیز
01 March 2023
میڈیا اپ ڈیٹ: اقوام متحدہ پاکستان، 1مارچ 2023
بلوچستان میں قانون کی حکمرانی پروگرام کے نئے روڈمیپ پر چھٹی صوبائی سٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس
کوئٹہ (28فروری 2023) - بلوچستان میں قانون کی حکمرانی پروگرام کے روڈمیپ کے سلسلے میں بنائی گئی سٹیرنگ کمیٹی کا چھٹا اجلاس 28 فروری 2023 کو کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں اصلاحات کے پہلے پانچ سالہ مرحلے کی کامیاب تکمیل اور 26-2023 کے لئے تیار کئے گئے نئے روڈمیپ کے اجراء پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس کے دوران اہم متعلقہ فریقوں نے قانون کی حکمرانی کے میدان میں شواہد پر مبنی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار کیا تاکہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کے اعتماد اور بھروسے کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور، حکومتِ بلوچستان کے آڈیشنل سیکرٹری جناب زاہد سلیم نے اپنے ابتدائی کلمات میں روڈمیپ کے تحت اہم اصلاحات پر عملدرآمد کے سلسلے میں پوری لگن اور محنت کے ساتھ کام کرنے پر تمام اداروں اور محکموں کی تعریف کی۔ نئے پانچ سالہ روڈمیپ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مرحلے کی کامیابیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے نظام کو مستحکم بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور تمام شہریوں بالخصوص انتہائی محروم طبقات کے لئے فراہمی انصاف کے موثر انتظامات اور بہترین مروجہ طریقوں کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے اس پروگرام کے لئے مالی تعاون پر یورپی یونین اور تکنیکی معاونت پر یو این او ڈی سی کا شکریہ ادا کیا۔
روڈمیپ کے تحت اداروں کی سطح پر فیصلے کرنے اور پورے نظام کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے نتائج پر مبنی طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ اجلاس کی بدولت تمام متعلقہ اداروں اور ترقیاتی پارٹنرز کو مل کر روڈمیپ میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر پہلے مرحلے کے نتائج کے مطابق 2023 میں سنگین اور پرتشدد جرائم پر سزا کے تناسب میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ زیرِسماعت قیدیوں کی تعداد 2019 میں 1122 تھی جو 11.2 فیصد کمی کے ساتھ 2023 میں 900 رہ گئی ہے۔
اجلاس میں پہلی بار بلوچستان پولیس، پراسیکیوشن، جیل خانہ جات، لیویز اور ریکلیمیشن اینڈ پروبیشن ڈپارٹمنٹ کے نمائندوں نے صوبائی سطح پر قانون کی حکمرانی سے متعلق طے شدہ اہداف پر اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی پیش کی۔ فوجداری نظام انصاف کے اداروں میں اس شعبے کی سطح پر باہمی روابط کے ذریعے بنیادی مسائل کو دور کرنے میں پیش آنے والی مشکلات اور اس حوالے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ آئندہ لائحہ عمل کے تحت حکومتِ بلوچستان کی جانب سے مختص کی گئی 50 ملین روپے کی رقم سے روڈمیپ پر عملدرآمد سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سٹیرنگ کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں دیگر اہم کامیابیوں کو بھی اجاگر کیا گیا جن میں فورانزک کیس جمع کرانے کی شرح میں 13.5 فیصد اضافہ، بلوچستان میں خواتین پولیس افسران کی تعداد میں 1.11 فیصد اضافہ، بلوچستان لیویز فورس سے ضمانت یافتہ افراد کے تناسب میں 5 فیصد اضافہ اور 7 خواتین سمیت لیویز کے 135 انوسٹی گیشن آفیسرز کی تربیت، 11 جیلوں میں ’پریزن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (پی ایم آئی ایس)‘ کا اجراء، 88 فیصد مردوں اور 11.1 فیصد خواتین پر مشتمل 153 پراسیکیوٹرز کی تربیت، تحقیقات و تفتیش سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد باہمی رابطہ اور تعاون بہتر بنانے کے لئے ستمبر 2022 میں پولیس اور پراسیکیوشن کے محکموں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط، ریکلیمیشن اینڈ پروبیشن ایکٹ کا جائزہ اور قانون سازی کے مسودہ کی تیاری پر تربیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اجلاس میں یورپی یونین مندوب کے شعبہ گورننس اینڈ ایجوکیشن کے ٹیم لیڈر جناب سوین روئش نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق سمیت عمدہ طرزِحکمرانی کا فروغ دنیا بھر میں اور بالخصوص پاکستان میں یورپی یونین کی اہم پالیسی ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون کی حکمرانی کے نئے روڈمیپ میں فراہمی انصاف، قیام امن و سلامتی اور بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے لئے اہم اہداف طے کر دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے
پر خوشی کا اظہار کیا۔
یورپی یونین مندوب کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے پارٹنر اداروں یو این ڈی پی اور یو این ویمن کے نمائندوں نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
پاکستان میں یو این او ڈی سی کنٹری آفس کے شعبہ کریمنل جسٹس اینڈ ریفارمز کی مشیر محترمہ جوہائدو ہانانو نے مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتائج پر مبنی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پروگرام کے سلسلے میں حکومتِ بلوچستان اور قانون کی حکمرانی سے متعلق اداروں کی انتھک محنت اور یورپی یونین کی جانب سے مالی تعاون کی فراہمی پر ان کا شکریہ ادا کیا جس کی بدولت بلوچستان کے عوام کو فراہمی انصاف میں بہتری لانے کے لئے اصلاحات کا تاریخی عمل مسلسل جاری ہے۔
اجلاس کے آخر میں بلوچستان میں فوجداری نظامِ انصاف کے اداروں کے لئے یو این او ڈی سی کی کوآرڈینیشن اور مشاورت سے تیار کئے گئے 12 تربیتی کتابچوں پر مشتمل نصاب کی تقریب اجراء منعقد کی گئی۔ یہ کتابچے فوجداری نظامِ انصاف کے متعلقہ اداروں نے تیار کئے ہیں اور ان اداروں نے ان کی توثیق کی ہے جن کی بدولت قانون کی حکمرانی سے متعلق اداروں میں مختلف سطح پر پائی جانے والی علوم اور مہارتوں کی کمی کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد ان کتابچوں کو متعلقہ اداروں میں رائج تربیتی نظام کا حصہ بنانا ہے جن میں اس کاوش کو پائیدار بنانے کے لئے "تربیت کاروں کی تربیت" اور "رہنمائی و سرپرستی" جیسے موضوعات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت کے وزیرِ داخلہ و قبائلی امور جناب ضیا اللہ لانگو نے پروگرام کے سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر تمام متعلقہ فریقوں بالخصوص مالی تعاون پر یورپی یونین اور تکنیکی معاونت پر یو این او ڈی سی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی روڈمیپ کے تحت اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے اور سب کے لئے امن، سلامتی اور انصاف کے ذریعے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے حکومتِ بلوچستان کے پختہ عزم کا اعادہ بھی کیا۔
چھٹی سٹیرنگ کمیٹی کے شرکا کو یورپی یونین کے مالی تعاون سے "ڈلیور جسٹس پراجیکٹ" کے تحت ہونے والی کامیابیوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ پراجیکٹ کے تحت 5 پولیس سٹیشنوں میں جدید سہولیات کی فراہمی کے ذریعے انہیں سمارٹ پولیس سٹیشنوں میں تبدیل کیا گیا ہے، اور ایک خدمت مرکز کے ذریعے شہریوں کو ایک چھت تلے پولیس خدمات تک تیز رسائی فراہم کرنے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی میں کتب اور تحقیقی مواد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فرنیچر بھی فراہم کیا گیا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں معاونت اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے اسے ایک جدید جوڈیشل اکیڈمی لائبریری اینڈ ریسرچ سنٹر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
سٹیرنگ کمیٹی کے چھٹے اجلاس کے بعد یکم مارچ کو ایک سمارٹ پولیس سٹیشن اور جوڈیشل اکیڈمی لائبریری اینڈ ریسرچ سنٹر کا افتتاح بھی کیا جا رہا ہے جو یورپی یونین کے مالی تعاون اور یو این او ڈی سی کی تکنیکی معاونت سے قائم کئے گئے ہیں۔ کوئٹہ میں اس وقت پانچ سمارٹ پولیس سٹیشن موجود ہیں جو پولیس سرگرمیوں اور جوابی کارروائیوں کی ڈیجیٹلائزیشن کی حکمتِ عملیوں پر کام کر رہے ہیں۔ جوڈیشل اکیڈمی لائبریری میں کتب، تحقیقی مواد، ڈیجیٹلائزیشن کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صورت میں معاونت اور فرنیچر کی فراہمی سے اکیڈمی کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
قانون کی حکمرانی پروگرام کے پہلے روڈمیپ کی منظوری چار سالہ مدت (2022-2018) کے لئے دی گئی تھی جو مئی 2022 میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ روڈمیپ کی حالیہ اویلیویشن کا مقصد نظرثانی شدہ اصلاحات کی تیاری کے لئے معلومات حاصل کرنا اور مزید چار سال (2026-2023) کے لئے اس عمل کو آگے بڑھانا تھا تاکہ اس کے تحت اپنائے گئے عمدہ طریقوں کا پیمانہ مزید وسیع کرتے ہوئے انہیں ٹھوس، پائیدار اور باقاعدہ شکل دی جائے اور شعبہ انصاف کی سرگرمیوں میں ڈیٹا کے استعمال پر مبنی طریقوں کو مزید فروغ دیا جائے۔ اویلیویشن سے حاصل ہونے والی معلومات اور قانون کی حکمرانی میں بہتری کے لئے تیار کی گئی حتمی اصلاحات بھی سٹیرنگ کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں پیش کی گئیں اور ان کی توثیق کی گئی۔ نظرثانی شدہ دستاویز وزیراعلی بلوچستان کو جمع کرائی جائے گی جسے منظوری کے لئے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
مزید معلومات اور استفسارات کے لئے رابطہ: محترمہ رضوانہ راہول، کمیونیکیشن آفیسر، موبائل +923018564255؛ فیکس: +92-51-2601469؛ ای میل: rizwana.rahool@un.org
1 of 5
پریس ریلیز
02 February 2023
میڈیا اپ ڈیٹ: اقوام متحدہ پاکستان، 1فروری 2023
قدرتی آفات کا بروقت مقابلہ کرنےکےلئے متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے
31/01/23: اسلام آباد
ممکنہ اثرات پر مبنی پیش گوئی اور تنبیہ کے نظام کو دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات کے خطرات اور اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ بر وقت پیش بندی کی جاسکے اور ان آفات سے آنے والی تباہی اور اثرات کو کم کیا جا سکے ۔ دنیا بھر میں سائنسی بنیادوں پر معلومات کی فراہمی کی سمجھ، ضرورت اور مانگ میں اضافہ ہورہا ہے تاکہ لوگ ممکنہ خطرات سے بروقت اور موثر طریقے سے نبٹ سکیں۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین اور شرکا کی جانب سے ممکنہ اثرات پر مبنی پیش گوئی اور پیشْ بندی اقدامات کی منصوبہ بندی کے موضوع پر ایک ورکشاپ کے دوران کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا انعقاد گذشتہ روز محکمہ موسمیات پاکستان نے ادارہ خوراک و زراعت اقوام متحدہ ( ایف اے او) اور ریجنل انٹیگریٹڈ ملٹی ھیزرڈز ارلی وارننگ سسٹمز فار ایشیا اینڈ افریقہ (رائمز)
(Regional Integrated Multi-hazard early warning systems for Asia & Africa)(RIMES) کے اشتراک سے کیا۔
ورکشاپ کے ذریعے محقیقین ، موحولیاتی تبدیلیوں کے ماہرین، ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے اداروں کے نمائندگان اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک سرکردہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا گیا تاکہ پاکستان میں موسمیاتی پیشگوئیوں سے متعلقہ دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیا جاسکے اور انکی بہتری کے لئے تجاویز حاصل کی جاسکیں۔
ورکشاپ کے مہمانِ خصوصی جناب ادریس محمود، ممبر ڈیزاسٹر رسک ریڈیکشن، نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے پاکستان میں قدرتی آفات سے نپٹنے کے لئے لوگوں کی استعداد بڑھانے میں ایف اے او اور رائمز کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی پیشگوئیوں کے نظام کو بہتر بنانے، متعلقہ آبادیوں تک انکو بروقت پہنچانےاور پیش گوئی اور تنبیہ کے مابین فر ق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں خاطر خواہ کاوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور این ڈی ایم اے اس سلسلے میں کام کرتا رہے گا۔ ۲۰۲۲ میں آنے والی تباہی نے قومی ایمرجینسی آپریشن نظام کو بڑھانے کے ہمارے عزم کو مزید پختہ کیا ہے جو کہ نا صرف قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرے گا بلکہ آفات آنے سے پہلے ان سے نپبٹے کی تیاری، مدافعت اور انکا مقابلہ کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
افتتاحی سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ، مہر صاحب زاد خان، ڈائریکٹر جنرل محمکہ موسمیات، پاکستان نے کہا کہ ممکنہ اثرات کی تیاری اور پیش بندی ابھرتے ہوئے موضوعات ہیں۔ان نظاموں کو یکساں بنانے کی ضرورت ہے۔ ممکنہ اثرات کی تیاری اور پیش بندی میں تنبیہی نظام کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور محکمہ موسمیات پاکستان میں اس نظام میں بہتری لانے اور اسکو نافذالعمل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ محکمہ اس وقت موسم کی صورتحال اور اسکے ممکنہ نتائج کے حوالے سے خاطر خواہ کام کر رہا ہے ۔ ممکنہ اثرات پر مبنی پیش گوئی کا نظام اس وقت صوبائی محکمہ جات برائے زراعت کے تعاون سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے چنیدہ ضلعوں میں کام کر رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکو دیگر اضلاع تک بھی وسیع کیا جائے گا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ممکنہ اثرات کی پیش کوئی اور پیش بندی اقدامات کے لئے متعلقہ اداروں کے مابین مضبوط اشتراک اور تعاون انتہائی اہم ہے۔محکمہ موسمیات کے لئے ایف اے او اور رائمز سے اشتراک اطمینان کا باعث ہے امید ہے کہ مستقبل میں ان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ یہ ورکشاپ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ، فلورنس رول نے کہا ورکشاپ کے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بات نہایت خوش آئیند ہے کہ ورکشاپ میں قدرتی آفات سے نپٹنے پر کام کرنے کے مختلف اداروں کے نمائندے موجود ہیں۔ محکمہ موسمیات پاکستان اور رائمز کے ساتھ اشتراک ایف اے او کے لئے خوشی کا باعث ہے۔ ایف اے او کے لئے پاکستان میں کام کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی حمایت بہت ضروری ہے۔ اداروں کے اشتراک سے ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ آج کی ورکشاپ میں ہمارے درمیان بہت سے ادارے موجود ہیں جو کہ مختلف سمتوں میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ہم سب کا مقصد ایک ہےاور وہ ہے قدرتی آفات میں گھرے ہوئے افراد کی بر وقت مدد کرنا۔ ۔ قدرتی آفات سے نپٹنے کے لئے اداروں کا مختلف جہتوں میں کام کرنا ضروری مگر چونکہ ہمارا مقصد ایک ہے تو ہم مل کر ان شعبہ جات کی نمائندگی کر سکتے ہیں جہاں ہماری دلچسپی مشترک ہے ۔
ڈاکٹر کے جے رامیش ( سینئر انڈوائزر رائمز)، ڈاکٹر ظہیر احمد بابر ( ڈائریکٹرمحکمہ موسمیات)، ڈاکٹر سرفراز ( چیف میٹرولوجسٹ، محکمہ موسمیات سندھ)، اسماء جواد ( ڈائریکٹر نیشنل ایگرو میٹ سینٹر)، ڈامیئن ریکے،ایف اے او ماہر برائے پیش بندی اقدامات، ایف اے او۔ عاطف خان( پروگرام مینیجر، ایف بی ایف، جرمن ریڈ کراس)، نعیم اقبال، سوشل پروٹیکشن اینڈ ریزیلئیس سپیشلسٹ ،ایف اے او نے مختلف موضوعات پر پریزینٹیشن دی۔ ان پریزینٹیشن نے ممکنہ اثرات سے بچنے اور تنبیہی نظام کی تیاری کے اقدامات، اشتراک سازی، اور موثر ابلاغ کی بہترین مثالوں جیسے موضوعات کا احاطہ کیا۔ مقررین نے ممکنہ اثرات اور پیش بندی کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ بروقت اور درست معلومات کی فراہمی اور عملی اقدامات کی بہتر پلاننگ کر کے ہم قیمتی جانیں اور املاک بچا سکتے ہیں
ورکشاپ میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمینٹ اٹھارٹی، پی ڈی ایم اے ، سپارکو، محکمہ موسمیات ، پاکستان ریڈ کراس، جرمن ریڈ کراس، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی ،صوبائی محکمہ جات زراعت، سپارکو، اقوام متحدہ کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی
برائے مزید رابطہ
فریحہ سلطان
کمیونیکیشز سپیشلسٹ
ایف اے او
0310-5944889
Fareeha.sultan@fao.org
1 of 5
تازہ ترین وسائل
1 / 7
1 / 7