ناامیدی سے امید کی جانب: نشے سے نجات کے بعد بحالی اور اپنے ماتھے پر لگے بدنامی کے داغ کو مٹانے والی پاکستانی خاتون کی کہانی
انسدادِ منشیات کا عالمی دن 2023
رواں سال انسدادِ منشیات کا عالمی دن 2023 کا مرکزی پیغام ہے "سب سے پہلے لوگ! بدنامی اور تفریق کا خاتمہ، مضبوط روک تھام"۔ اس دن کی مناسبت سے یو این او ڈی سی دنیا بھر میں منشیات سے بچاؤ اور علاج کے سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کو اجاگر کر رہا ہے اور اس اہم ترین مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھا رہا ہے۔
پاکستان (26 جون 2023) – "نشے کی عادت نے مجھے بے پناہ نقصان پہنچایا، اتنا کہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں"۔
پچیس سالہ لیلیٰ * کا تعلق ایک شریف اور معزز گھرانے سے ہے اور ان دنوں پاکستان میں نشے سے متاثرہ افراد کے علاج اور بحالی کے ایک مرکز میں ناامیدی سے امید کی جانب سفر پر گامزن ہیں۔ ان کی نظریں کھڑکی کے دوسری جانب باہر کی دنیا پر جمی تھیں اور کپکپاتی آواز میں وہ اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔
لیلیٰ کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں ہی ہو گئی تھی۔ان کے شوہر اکثرگھر سے غائب رہتے اوران حالات میں لیلیٰ کی واحد ساتھی اُن کی تنہائی تھی۔
سسرال والوں کا برتاؤ بھی ہرگز مناسب نہ تھا لیکن لیلیٰ اسے برداشت کرتی رہیں۔ البتہ جب وہ امید سے تھیں تو چند گھڑی سکون کی تلاش میں انہیں اپنے میکے میں پناہ لینا پڑی۔ حالات اس نہج کو پہنچ گئے کہ لیلیٰ کو شوہر سے طلاق لینے کا سب سے مشکل فیصلہ بھی کرنا پڑا۔
وہ بتاتی ہیں کہ "طلاق کے بعد تو جیسے تنہائی نے انہیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لے لیا اور پھر انہیں نشے کی راہ پر ڈال دیا"۔ بحالی مرکز کا ذکر کرتے ہوئے وہ بولیں، "میں بتا نہیں سکتی کہ یہاں آنے سے پہلے میری حالت کیا ہو چکی تھی۔ میں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا تھا جہاں ہر طرف دھوئیں کا زہر پھیلا تھا اور میں ہر وقت نڈھال سی ایک نکڑ میں ڈھیر رہتی تھی۔ پھر کسی نے میرے گھر والوں کو میری خبر کر دی اور انہیں بتایا کہ نشے کی عادت نے کس طرح مجھے ایک اندھیری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ میرا سب کچھ لٹ چکا تھا، اور مالی حالات بھی اچھے نہ رہے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ مجھے اپنے بچے کی بھی پرواہ نہ تھی۔ میں کہیں بے سدھ سی پڑی رہتی اور اس کی خبر لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔"
گھر والوں نےلیلیٰ کی یہ حالت دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا، خوب سمجھایا بجھایا کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، نشے کا علاج ہو سکتا ہے۔ پہلے پہل تو لیلیٰ ان کی بات ماننے کو تیار نہ ہوئیں، لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا۔ گھر والوں نے سہارا دیا اور وہ تین ماہ کے کورس کے لئے بحالی مرکز پہنچ گئیں جہاں انسدادِ منشیات و جرائم کے لئے اقوامِ متحدہ کے ادارے، یو این او ڈی سی کے تربیت یافتہ ٹرینرز نے امید کے سفر پر لوٹنے میں لیلیٰ کی بھرپور مدد کی۔
یو این او ڈی سی، علاج معالجہ کے یونیورسل نصاب (یو ٹی سی) اور بچاؤ کے یونیورسل نصاب کے تحت پاکستان میں منشیات کے علاج اور بچاؤ پر کام کرنے والے ماہرین کی استعداد بڑھانے میں مدد دے رہا ہے اور سِوِل سوسائٹی، شعبہ صحت و تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 100 سے زائد ماہرین کو منشیات کے علاج معالجہ کی تربیت فراہم کر رہا ہے۔
یہ دونوں نصاب یو این او ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تیار کی گئی گائیڈ "نشے کی بیماریوں کے علاج کے بین الاقوامی معیارات " کی روشنی میں وضع کئے گئے ہیں اور ان میں نشے کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل اور بیماریوں کے علاج کے لئے موثر نظام وضع کرتے ہوئے ان کے مرکزی اجزاء اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں نشے کی بیماری کے مختلف مراحل اور مسائل کی شدت کے مطابق لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے علاج کے باقاعدہ طریقے اور اقدامات بیان کئے گئے ہیں۔
اس مرکز میں آنے کے بعد لیلیٰ کو احساس ہوا کہ نشے نے انہیں کتنی بڑی تباہی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ وہ خود کہتی ہیں کہ "انسانوں والی کوئی بات ہی نہ رہی تھی۔ سوچنا بھی محال لگتا ہے کہ ایک ایسی لڑکی جو کبھی ایک خوش وخرم زندگی گزار رہی تھی، اس بدحالی کو بھی پہنچ سکتی ہے۔ میری نشے کی اس عادت کی وجہ سے میرے گھر والوں نے اور میرے بھائیوں نے جو مشکلیں اٹھائیں اور جو صعوبتیں برداشت کیں، ان پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میرے بھائی کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے تھے، میرا گھر ٹوٹ گیا اور مجھ سے میرے بچوں کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ بہرحال اب یہ سب پرانی باتیں ہو گئی ہیں۔ اب میں بحالی کی راہ پرچل پڑی ہوں، جس کا ہر قدم ایک نئی امید کی نوید ہے اور جس کی منزل یقین ہے۔ آج میرا علاج مکمل ہو رہا ہے، اور میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ آج میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں، میں نے یہاں جو وقت گزارا اس کی بدولت مجھے علم وحکمت کی وہ دولت ملی جس کی کوئی قیمت نہیں۔ میری خلو ص دل سے یہ دعا ہے کہ میرے قدم پھر کبھی نہ ڈگمگائیں اور میں دوبارہ اس طرف مڑ کے بھی نہ آؤں"۔
*رازداری کے پیش نظر فرضی نام استعمال کیا گیا ہے۔
کہانی: UNODC پاکستان