اقوام متحدہ حکومت پاکستان کی مسلسل مدد کرنے کے پختہ ارادے پر قائم ہے تاکہ اپنی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرسکے اور پائیدار ترقی کے اہداف(SDGs)کے حصول کے لیےعالمی وعدوں پر عمل کرسکے۔ اقوام متحدہ قدرتی آفات اور بحرانوں کے دوران بھی پاکستان کی امداد کرتاہے۔
حکومت پاکستان نے 2006 میں اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اُس وقت سے اقوام متحدہ کے شراکت دار ادارے ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر قومی ترجیحات اوراس کی کارکردگی کی افادیت میں اضافہ کرنے کے لیے باہمی طورپر مل جل کرکام کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پروگرام (2009-2012) پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور وزیر اعظم پاکستان کی موجودگی میں فروری 2009 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے پروگرام (2013-2017) کو قومی سیاسی طریقہ ہائے کار اور قومی اور صوبائی ترقی کی ترجیحات، لائحہ عمل اور حکمت عملیوں کے ساتھ متوازن بنایاگیا تھا۔ اقوام متحدہ کے پروگرام(2018-2022) پر اپریل 2018 میں دستخط کیے گئےجو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی اصلاحات اور بہتر طریقہ کار کی ترجمانی کرتاہے۔
اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پاکستان میں اقوام متحدہ کی کوششوں کی بنیاد انسانی حقوق پر مبنی نقطہ نظر پر رکھی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے تمام اقدامات میں صنفی مساوات، شمولیت، صلاحیت سازی اور ماحولیاتی پائیداری پر بھی توجہ دی گئی ہے۔
ترقی کے پائیدار اہداف(SDGs)کے حصول کے لیےاقوام متحدہ نے اپنی بھر پورتوجہ اور عزم کی تجدید کے لیے2020 کے اختتام پرایک مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اقدامات
1
گورننس، معاشی ترقی اور بہتر کام: پاکستانی عوام کو 2022 تک اپنے حقوق کےبارے میں وسیع تر علم حاصل ہوجائے نیز جوابدہ، شفاف اور موثرگورننس( نظم و نسق) کے نظام اور قانون کی حکمرانی کے اداروں تک بہتر رسائی بھی حاصل ہو جائے ۔
2
غذائیت، صحت و صفائی اور پانی تک رسائی: بچوں، نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین، بوڑھوں اور معذور افراد کے لیے خوراک کی مقدار، کھانا کھلانے اور دیکھ بھال کے طریقوں کو 2022 تک بہتر بنایاجائے جس کے نتیجے میں غذائیت کی صورت حال بہترہوجائے جبکہ نشوونما اور غذائیت کی کمی کی دیگر اقسام پر بھی قابو پایا جائے ۔پاکستان کے لوگوں خاص طورپر سب سے زیادہ مسائل کے شکار اور پسماندہ عوام کو 2022 تک عالمی صحت کی بہتر سہولیات سمیت جنسی اور تولیدی صحت اورصحت و صفائی اور پانی تک رسائی کی مساوی خدمات حاصل ہوجائیں اور وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
3
غذائی تحفظ اور پائیدار زراعت: پاکستان کے لوگوں خاص طور پر سب سے زیادہ مسائل کے شکار اور پسماندہ آبادیاں کو2022 تک محفوظ، غذائیت سے بھرپور اور وافر خوراک دستیاب ہوجائے جبکہ غربت کے خاتمے کے حصول کے لیے پائیدار زراعت کو فروغ دیا جائے۔
4
مشکل حالات سے مقابلہ کی قوت: قدرتی اور دیگر آفات سے نمٹنے سمیت موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کےلیے اقدامات کیے جائیں۔ ثقافتی اور قدرتی وسائل کے پائیدار انتظام کے ذریعے2022 تک پاکستان کے لوگوں خصوصاً اہم آبادیوں کی مقابلے کی قوت میں اضافہ کیا جائے ۔
5
تعلیم کے مواقع: بچوں اور نوجوانوں کو 2022 تک معیاری تعلیم کے مواقع تک وسیع تر،مساوی اور جامع رسائی حاصل ہوجائے اوروہ ان سے پھرپورفائدہ اٹھائیں ۔
6
سماجی تحفظ، صنفی مساوات اور عزت و وقار: تمام لوگوں خاص طورپر مسائل کی شکار اور پسماندہ آبادیوں کو2022 تک بہتر اور موثر سماجی تحفظ کے نظام دستیاب ہوجائیں۔ 2022 تک صنفی مساوات کی فراہمی کے وعدوں اور سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے حکومتی اداروں کی جوابدہی میں بھی اضافہ ہوجائے ۔
1 / 6
پاکستان میں پائیدار ترقیاتی اہداف
پاکستان نے قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 2016 میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو اپنے قومی ترقی کے ایجنڈے میں شامل کرتے ہوئے پائیدار ترقی کے ایجنڈے 2030 کے ساتھ اپنی وابستگی کااظہارکیا۔ اس کے بعد ملک نے اپنی قومی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں ان اہداف کو شامل کیا اور پاکستان میں SDGs کے نفاذ کے لیے ایک ادارہ جاتی لائحہ عمل تیار کرکے قابل ذکر پیش رفت کی ۔ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر منصوبہ بندی کے اداروں (وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور خصوصی اقدام اور صوبائی منصوبہ بندی و ترقی کے اداروں) کے ساتھ SDGs کے معاون یونٹس قائم کیے گئے تاکہ SDGs کے نفاذ اور اس کی پیش رفت کی نگرانی کی جا سکے۔حکومت نے 2018 میں ایک قومی SDGs لائحہ عمل منظور کیا جو SDGs کو ترجیح دینے اور موثر بنانے کے لیے ایک قومی نظریہ پیش کرتا ہے۔ مقامی طور پر صوبائی SDGs کے لائحہ عمل تیارکیے جارہے ہیں۔ حکومت منصوبہ بندی کے عمل میںSDGs کو مرکزی دھارے میں لانے، ان اہداف کی پھرپور نگرانی اور رپورٹنگ کو یقینی بنانے، سرکاری مختص کردہ رقوم کو SDGs کے ساتھ متوازن بنانےاور متبادل مالیاتی طریقہ کار تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ SDGs کی پیش رفت کو تیز کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال سے فائدہ اٹھانے پر اپنی توجہ دے رہی ہے۔