میڈیا اپ ڈیٹ-2: 10 ستمبر 2022
11 September 2022
اس میڈیا اپ ڈیٹ میں شامل ہیں:
- اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کا بیان
اقوام متحدہ
سیکرٹری جنرل کا بیان
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے سیلاب سے متعلق بریفنگ کے بعد سیکرٹری جنرل کا بیان
سکھر، 10 ستمبر
جب ہم المیے ، جانوں کے ضیاع، تباہی، املاک کے نقصان، معاشی نقصان کے بارے میں اتنی تفصیل سنتے ہیں تویقیناً ا س کا دل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ آپ کی بات سن کر میں دیکھتا ہوں کہ امید ختم نہیں ہوئی۔ لیکن اس امید کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو تین بنیادی حقائق کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، جیسا کہ آپ نے کہا، انسانیت فطرت کے خلاف جنگ کر رہی ہے ، اور فطرت پلٹ کر وار کرتی ہے۔ لیکن فطرت نے سندھ پر حملہ کیا، لیکن سندھ اتنی زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار نہیں تھا۔ لہٰذا سندھ میں تباہی کی جو سطح ہم دیکھ رہے ہیں یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین چیزوں کو سمجھے اور ظاہر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے اپنا اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
پہلا یہ کہ سندھ سمیت پورےپاکستان کو آج اس بحران پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ آپ نے بھی کہا، میں بھی کہہ رہا ہے کہ یہ سخاوت کا معاملہ نہیں ہے ، یہ انصاف کا معاملہ ہے۔
دوسرا، ہمیں اس پاگل پن کو روکنے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ ہم فطرت سے سلوک کر رہے ہیں۔ سائنسی برادری کے مطابق، ہمیں2030 تک اخراج کو 45 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں صدی کے اختتام کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، میں 2050 کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، میں اب کے بارے میں بات کر رہا ہوں. اب وقت آگیا ہے کہ اخراج کو کم کیا جائے۔ سی او پی 27 کے قاہرہ میں ہونے والے مباحثوں میں یہ لازمی جزو ہوگا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے ہی ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ماحولیاتی تبدیلی تباہ کن انداز میں اثرات دکھا رہی ہے۔ لہذا ، ماحولیاتی موافقت کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جانا چاہئے ، جس کا مطلب لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور مدافعت کی حامل کمیونٹیز کی ترویج اور ایسے لوگوں کی معاونت کرنا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ نشانے پر ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاٹ سپاٹ میں سے ایک ہے ۔ ان ممالک کے لئے اگلی تباہی کے لئے تیار ہونے اور اگلی تباہی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کے لئے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے مالی اعانت میں کثیر اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ابھی تک اس حوالے سے سنجیدہ مباحثہ شروع ہی نہیں ہوا۔
اور پھر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اقوام متحدہ پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے ۔ ہم اپنی محدود صلاحیت اور وسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن ایک بات آپ کو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم مکمل طور پر پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں۔ ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ہم کر سکتے ہیں، نہ صرف اپنی محدود صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے، بلکہ بیداری بڑھانے کے لئے اور ان لوگوں سے درخواست کرنے کے لئے جو پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم ان سے یہ بھی درخواست کریں گے کہ وہ یہ کریں، اور بڑے پیمانے پر کریں، اور یہ کہ وہ مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے اس ملک کی تیاری کو بھی مدنظر رکھیں تاکہ اس ملک کی آبادی خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔
ہماری وابستگی، ہماری بہت مضبوط اور جذباتی یکجہتی ایک ایسی چیز ہے جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ!
سیلاب کے بعد رضاکارانہ طور فوری امداد کے لیے پہنچنے والے شہریوں سے ملاقات کے بعد سیکرٹری جنرل کی گفتگو
لاڑکانہ، 10 ستمبر
خواتین و حضرات!
آج آپ نے ہمیں جو کچھ بتایا ہے اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ نے ایک بہت بڑی جرات، ایک بہت بڑی سخاوت کا مظاہرہ کیا ہے اور آپ یکجہتی کی حقیقی علامت ہیں۔
میں تصور کر سکتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک مون سون کی آمد کے ساتھ بڑے خطرات کا شکار ہوا، آپ کے گھر تباہ ہو گئے اور آپ خطرے کا اب بھی شکار ہیں۔ آپ نہ صرف اپنے بارے میں سوچنے کے قابل تھے، بلکہ دوسروں کے بارے میں سوچنے اور دوسروں کو بچانے میں مدد کرنے کے قابل تھے۔ یہ دنیا کے لئے ایک شاندار مثال ہے۔
میں نے اپنے دورے کے دوران اسلام آباد، سکھر اور بلوچستان کے مختلف مراکز سے بہترین بریفنگز حاصل کیں۔ میں نے تمام اعداد و شمار سنے: مرنے والے لوگوں کی تعداد، مرنے والے مویشیوں کی تعداد، مدد کی ضرورت والے لوگوں کی تعداد، اور دیگرمعلومات حاصل کیں۔ مجھے بہت اچھی طرح سے بریفنگ دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جوابی امدادی کارروائیوں کو مربوط کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
لیکن آپ کی گواہی بہت زیادہ اہم ہے۔ یہ اعداد و شمار کے بارے میں نہیں ہے، یہ لوگوں کے بارے میں ہے، ان کسانوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اپنی فصلوں کو کھو دیا ہے، ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا ہے، ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اپنے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے، ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے پاس ان قرضوں کو ادا کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہے جو انہوں نے فصلیں اگانے کے لیے حاصل کیے تھے۔
اور آپ نے انہی لوگوں کی مدد کی ہے اور انہیں تباہ کن سیلاب سے بچانے کی کوشش کی ہے۔
بدقسمتی سے، اب دنیا میں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خود غرض ہیں اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر ہم آپ کی یکجہتی، سخاوت اور جرات کی مثال کو استعمال کرتے ہوئے دنیا سے کہیں کہ وہ پاکستان کی حمایت میں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرے، تاکہ پاکستان ان تمام لوگوں کی مدد کر سکے جن کے بارے میں میں نے بیان کیا ہے اور جو بہت زیادہ مصائب جھیل رہے ہیں، تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
آپ اپنے پڑوسی کی مدد کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں ہمارے پاس صرف یہی کچھ ہے۔ اس لیے آپ کو ہمسایوں کے بارے میں وہی رویہ اختیار کرناہے جو آپ چاہتے ہیں کہ ہمسائے میں آپ کے ساتھ اختیار کیا جائے۔
آپ کے کام کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ جو بہت اہم تھا۔
سیکرٹری جنرل
پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس
10 ستمبر 2022 کراچی، پاکستان
[بیان کے مطابق متن]
شام بخیر، صحافی خواتین و حضرات!
ہم نے فطرت کےساتھ اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اور، جیسا کہ ہم یہاں پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، فطرت پلٹ کر وار کر رہی ہے اور اس کے تباہ کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی ہمارے سیارے کی تباہی کو مزید بڑھا رہی ہے۔
میں نے دنیا میں بہت سی انسانی آفات دیکھی ہیں ، لیکن میں نے اس پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی سے تباہی نہیں دیکھی۔ آج میں نے جو کچھ دیکھا ہے اسے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں: ایک سیلاب زدہ علاقہ جو میرے اپنے ملک پرتگال کے کل رقبے سے تین گنا زیادہ ہے۔
1،300 سے زیادہ جانیں ضائع ہوگئیں۔ دسیوں لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس وسیع و عریض ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا۔ مویشیوں اور فصلوں کا صفایا ہو گیا۔
لیکن ان اعداد و شمار کے پیچھے انسانی مصائب کی ناقابل تلافی گہرائیاں پوشیدہ ہیں۔
لیکن میں نے انسانی برداشت اور بہادری کی عظیم بلندیوں کو بھی دیکھا ہے - ہنگامی کارکنوں سے لے کر اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے والے عام لوگوں تک۔
یقینا، ہم ان اعداد و شمار کا حوالہ دے سکتے ہیں جو خوفناک ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے بارے میں ایک سوال ہے جو تکلیف میں ہیں: وہ خاندان جنہوں نے اپنے گھروں کو کھو دیا ہے، یا خاندان کے ارکان کو کھو دیا ہے، وہ کسان جنہوں نے اپنی فصلوں یا اپنے مویشیوں کو کھو دیا ہے۔ جن لوگوں کے پاس اب وہ ذریعہ معاش نہیں ہے، جن کی انہیں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس دورے کے دوران میرے لیے سب سے زیادہ جذباتی لمحہ ان خواتین اور مردوں کے ایک گروپ کو سننا تھا جنہوں نے اپنے مال کی قربانی دی ہے، اپنے گھروں سے چیزوں کو بچانے کی فکر نہیں کی۔ انہوں نے پڑوسیوں کو بچانے میں مدد کرنے کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا، پڑوسیوں کو گرنے والے گھروں سے باہر نکلنے میں مدد کرنے کے لئے، باحفاظت جگہ پر پہنچنے کے لیے بے لوث کام کیا۔
غریب عوام کی اس غیر معمولی سخاوت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اس مثال کو دنیا کے وہ تمام لوگ بھی فالو کریں گے جو ضرورت کی اس گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
میں پاکستانی حکام کی عظیم کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جن میں سویلین اور فوجی، قومی اور مقامی حکام شامل ہیں۔
میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اپنے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس میں حصہ لیا۔ میں ان تمام ڈونرز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس خوفناک گھڑی میں پاکستان کی مدد کرنا شروع کی ہے۔
ضرورتیں بہت زیادہ ہیں اور میں پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر اور فوری مالی مدد کی درخواست کرتا ہوں ۔ اور یہ صرف یکجہتی یا سخاوت کا سوال نہیں ہے۔ یہ انصاف کا سوال ہے۔ پاکستان کسی ایسی چیز کی قیمت ادا کر رہا ہے جس کا ذمہ دار کوئی اور ہے۔
میں اسے سٹیرائڈز مون سون کہتا ہے ، اور اس پیمانے کی آفات کے بارے میں کچھ بھی قدرتی نہیں ہے۔
انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی پاکستان میں طوفانوں اور تباہ کاریوں کو بڑھا رہی ہے ، بلکہ چاڈ ، جزیرہ نما صومالیہ میں بھی اس کے خوفناک نتائج خشک سالی اور قحط کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔
ان تمام ممالک نے مسئلہ پیدا نہیں کیا - لیکن وہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔
ان انتہائی موسمی واقعات میں ان سب پر انسانی سرگرمی کے نشان ہیں - خاص طور پر ،فوسل ایندھن کا جلانا ہمارے سیارے کو گرم کرتا ہے۔
جی 20 ممالک اس وقت گیسز کے اخراج کے 80 فیصد کے ذمہ دار ہیں - اور ترقی یافتہ معیشتیں پوری تاریخ میں گرین ہاؤس گیسوں کے زیادہ تر اخراج کے ذمہ دار رہے ہیں۔
یہاں پاکستان کی طرف سے ، میں ایک نکتے کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں :
دولت مند ممالک اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اس طرح کی آفات سے نکلنے میں مدد کریں ، اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے لچک پیدا کریں جو بدقسمتی سے مستقبل میں دوبارہ سامنے آ سکتے ہیں۔
دردناک حقیقت یہ ہے کہ یہ اثرات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا سمیت ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کے شدید حالات میں رہنے والے لوگوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے مرنے کا امکان 15 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ تقریبا نصف انسانیت اب اس زمرے میں ہے، ترقی پذیر دنیا میں بھاری اکثریت ایسے خطرات کا شکار ہے۔
جیسا کہ پاکستان سیلاب کی لپیٹ میں ہے، جیسا کہ قحط افریقہ کو متاثر کررہا ہے، امیر ممالک کو موافقت کی مالی اعانت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
پاکستان جیسے ممالک کے لئے تمام ماحولیاتی مالی اعانت کا کم از کم نصف موافقت اور لچک پیدا کرنے پر خرچ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اگلے سیلابوں کا اس طرح مقابلہ کرسکیں کہ ان کے شہریوں کی جانیں، املاک اور کاروبار محفوظ رہیں۔
تمام ممالک – بالخصوص جی 20 ممالک – کو ہر سال اپنے گیسوں کے قومی اخراج میں کمی کے اہداف کو بڑھانا ہوگا ، جب تک کہ دنیا کے 1.5 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی حد کو حاصل نہیں کر لیا جاتا ، اور ہمیں اسے ناقابل تلافی طور پر ناممکن بنانا ہو گا۔
میں نے یہاں پاکستان میں ایک عظیم الشان انسانی المیہ دیکھا ہے، لیکن میں نے مستقبل بھی دیکھا ہے۔
جیسا کہ ہمارے سیارے کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے ، تمام ممالک کو نقصان اٹھانا پڑے گا جو ان کی موافقت کی صلاحیت سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔
آج یہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کل، یہ آپ کے ملک میں ہوسکتا ہے ، جہاں آپ رہتے ہیں۔
یہ ایک عالمی بحران ہے۔ جیسا کہ [وزیر خارجہ] نے کہا، یہ ایک عالمی امدادی اعلان کا مطالبہ کرتا ہے۔
آپ کا شکریہ !
اسلام آباد میں نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد
سیکرٹری جنرل کا پریس کانفرنس سے خطاب
اسلام آباد، 9 ستمبر 2022ء
جناب وزیر اعظم!
مجھے پہلے پاکستانی عوام اور پھر دنیا بھر کے لوگوں کے لیے چند الفاظ کہنے کی اجازت دیجیے۔
پاکستانی عوام کے لیے: میں پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہوں ۔ 17 سال قبل جب میں نے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا تب سے میرا آپ کے ملک سے تعلق ہے۔ میں نے ہمیشہ پاکستانیوں کی بے پناہ سخاوت کا مشاہدہ کیا ہے، [اس وقت]انہوں نے 60 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا استقبال کیا، ان کی حفاظت کی، ان کی مدد کی، ان کے ساتھ اپنے قلیل وسائل کا اشتراک کیا۔ میں نے آپ کی سخاوت دیکھی ہے،آپ نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے، خاندان کی مدد کی ہے، برادریوں کی مدد کی ہے۔
جب میں 2005 میں زلزلے کے بعد آیا ،جب میں 2010 میں سیلاب کے بعد آیا تھا ، اور جب میں بعد میں آیا تب وادی سوات کے ارد گرد دہشت گردی کے ڈرامائی حملے ہو رہے تھے، اسلام آباد کے قریب حملے ہو رہے تھے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے اور میں ان کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
لہٰذا میں جانتا ہوں کہ پاکستانی عوام کے لیے اس بے مثال قدرتی آفت کا کیا مطلب ہے۔ پاکستان پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس سے ملتا جلتا کچھ بھی یاد نہیں ہے ۔ اور میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے، آپ کے ملک کے ساتھ تعاون اور اس بہت ہی ڈرامائی صورتحال میں آپ سب کی مدد کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے جس میں شمار کیے گئے افراد سے باہر بہت سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ میں اس تعداد سے باہر ان خاندانوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ میں ان کنبوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے گھروں کو کھو دیا۔ میں ان کنبوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنی فصلیں کھو دیں۔ میں ان خاندانوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنی نوکریاں کھو دیں، اور جو اس وقت مایوس کن حالات میں رہ رہے ہیں۔
میں نے سول سرونٹس، حکومت، فوج، این جی اوز، کمیونٹی کی جانب سے، یہاں تک کہ پاکستان کے صوبوں میں یکجہتی کا غیر معمولی مظاہرہ بھی دیکھا ہے۔
اور میں بین الاقوامی برادری سے چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کو ان بحرانوں سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت ہے، اس بحران نے شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس کی لاگت تقریباً 30 ارب ڈالر ہے۔
یہ تعاون مکمل طور پر ضروری ہے، اور یہ یکجہتی کا معاملہ نہیں ہے، یہ انصاف کا معاملہ ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا ہے۔ اس ملک میں گیسوں کے اخراج کی سطح نسبتا کم ہے۔ لیکن پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی صف اول میں شامل ہے۔ یہ بالکل ضروری ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے تسلیم کیا جائے ، خاص طور پر ان ممالک کی طرف سے جنہوں نے ماحولیاتی تبدیلی میں زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ اور یہ موثر یکجہتی، موثر انصاف اب مون سون کے ان تباہ کن اثرات، تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز کے بعد ریلیف، بحالی یا تعمیر نو کے لئے بڑے پیمانے پر تعاون کی صورت میں نظر آنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم ایک تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے فطرت کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے اور فطرت جوابی حملہ کر رہی ہے اور تباہ کن انداز میں جوابی حملہ کر رہی ہے۔ آج پاکستان میں، کل آپ کے کسی بھی ملک میں ایسا ہو سکتا ہے۔
ہمیں گیسوں کے اخراج میں اضافے کو روکنے اور اب انہیں کم کرنے کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمیں ان ممالک سے تعاون کرنے کے لئے بہت زیادہ وسائل کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدافعت پیدا کی جا سکے۔ موافقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے ساتھ زندگی گزارنے کے حالات پیدا کیے جا سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے رکن ممالک کے اگلے کنونشن میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور نقصانات کو سنجیدگی سے زیر بحث لایا جائے، تاحال ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے کے لئے ہر ایک کی کوششوں کو متحرک کرنے کا وقت ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کے ہر گروپ کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ اس لمحے میں پاکستانی عوام کی بھرپور مدد کریں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پریس کانفرنس میں سیکرٹری جنرل کا خطاب
اسلام آباد، 9 ستمبر 2022ء
صحافی خواتین و حضرات، سہ پہر بخیر!
میں یہاں اس سال سیلاب سے ہونے والے تباہ کن جانی و مالی نقصان، انسانی مصائب اور مادی نقصان پر پاکستانی عوام کے ساتھ اپنی گہری یکجہتی کا اظہار کرنے آیا ہوں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں ماحولیاتی تبدیلی سے جڑی ہیں۔
آج مجھے وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اور حکومت کے دیگر سینئر ارکان نے تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا۔
پاکستان کے کچھ خطوں میں اگست کے مہینے میں تاریخ کی ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ اور کچھ صوبوں میں بارش معمول سے آٹھ گنا زیادہ تھی۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بالکل واضح نظر آ رہے ہیں۔
کل میں ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب کے اثرات کا معائنہ کروں گا ۔
لیکن ہم سب نے غیر معمولی تباہی کی میڈیا تصاویر دیکھی ہیں۔ میں صرف اس پانی کی طاقت اور وحشت کا تصور کر سکتا ہوں کیونکہ یہ گاؤں، سڑکوں، پلوں اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے گیا ہے۔ یہ واضح طور پر خوفناک تھا - پانی ایک دیوار کی طرح آیا۔
میرا دل ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اس سانحے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، اور ان تمام لوگوں کے ساتھ ہےجو اپنے گھروں، کاروبار اور ذرائع معاش کی صورت میں نقصان اٹھا رہے ہیں۔
جب میں ہائی کمشنر برائے مہاجرین تھا تو میں نے کئی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان نے لاکھوں افغانوں کی مدد کی اوردنیا کے سب سے موثر اور فراخدلانہ پناہ گزین آپریشنز میں سے ایک کو چلایا۔
لہٰذا یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ نہیں ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ میرا 17 سال سے پیار ہے۔ میں 2005 میں زلزلے کے متاثرین سے بات کر رہا تھا۔ مجھے 2010 میں سیلاب کی تباہ کاریاں یاد ہیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ جب وادی سوات میں دہشت گرد حملے کر رہے تھے اور اسلام آباد کے قریب آ گئے تھے تو میں اس ڈرامائی صورتحال میں بے گھر لوگوں کے ساتھ تھا ۔ اور، کئی بار، بلوچستان میں، خیبر پختونخوا میں، میں نے دیکھا کہ کس طرح [پاکستانی] عوام افغان مہاجرین کی فراخدلی سے میزبانی کرتے ہیں۔ اور ایک چیز جو میں نے ہمیشہ پاکستان میں دیکھی وہ یہ تھی کہ لوگ کس طرح دوسرے لوگوں کی معاونت کرتے ہیں۔ پاکستانی ہوں یا افغان، کمیونٹیز سخاوت اور یکجہتی کے زبردست احساس کے ساتھ دوسری برادریوں کی معاونت کرتی ہیں۔
لہٰذا میں یہ دیکھ کر بہت جذباتی ہوتا ہوں کہ اس وقت بہت سے پاکستانیوں کو کس قدر مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ ایسے سخی لوگوں کو اس بحران سے گزرتے ہوئے دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے۔
کوئی بھی ملک اس قسمت کا مستحق نہیں ہے، لیکن خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک نہیں جنہوں نے گلوبل وارمنگ میں تقریباً کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
فوسل ایندھن کے بڑے استعمال کنندگان سائنس، کامن سینس اور بنیادی انسانی شائستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اب بھی گیسوں کابڑے اخراج کے ذمہ دار ہیں جس کے نتائج پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
لوگ سیلاب اور قحط سے مر رہے ہیں مگر آج بھی گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے ، یہ پاگل پن ہے۔ یہ اجتماعی خودکشی ہے۔
پاکستان سے میں ایک عالمی اپیل جاری کر رہا ہوں: پاگل پن بند کریں۔ فطرت کے ساتھ جنگ کا خاتمہ کریں۔ اب قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کریں۔
اور جیسے جیسے بحران زور پکڑتا جا رہا ہے، یہ واضح ہے کہ زیادہ تر ممالک اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر پاکستان اور فرنٹ لائن پر موجود دیگر ممالک کو ان مہلک سیلابوں جیسے شدید موسمی واقعات سے بچنے کے لیے درکار مالی اور تکنیکی وسائل فراہم کرنے ہوں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی پوری امداد کا نصف حصہ ترقی پذیر دنیا میں موافقت اور مدافعت پر خرچ کیا جانا چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اپنی مالی امداد کو دوگنا کرنے کے اپنے عزم کی معاونت کرنے کے لئے ایک قابل اعتماد روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔
موسمیاتی بحران سے ہونے والی تباہی اور نقصان مستقبل کا واقعہ نہیں ہے۔ یہ اب ہو رہا ہے، ہمارے ارد گرد۔ میں حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ سی او پی 27 میں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کریں۔
صحافی خواتین و حضرات!
اقوام متحدہ پاکستانی حکومت کی امدادی کوششوں کی معاونت کے لیے میدان میں ہے۔ ہم اور سول سوسائٹی اقوام متحدہ کے سینٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ سے جاری کردہ فنڈز کا اچھا استعمال کر رہے ہیں اور ہم دبئی سے فضائی امداد کے ذریعے اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔
ہمارے لوگوں نے بلوچستان اور سندھ میں لاکھوں لوگوں کو خوراک یا نقد امداد فراہم کی ہے، بچوں اور عورتوں کی مدد کے لئے ٹنوں ہنگامی سامان پہنچایا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ پاکستانی عوام کی ضروریات لحاظ سے سمندر میں ایک قطرے کی طرح ہے۔
لاکھوں بے گھر افراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں، اور اس سے کہیں زیادہ، کم از کم 60 لاکھ لوگ لوگوں کے گھروں میں رہ رہے ہیں جو ان کے ساتھ اپنا سب کچھ بانٹ رہے ہیں۔
میرے دورے کی ایک اہم وجہ بین الاقوامی برادری کی توجہ اس موسمیاتی تباہی کی طرف مبذول کرانا اور بڑے پیمانے پر تعاون کی اپیل کرنا ہے۔ پاکستان کو ریلیف کے لیے بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت ہے اور پھر بحالی کے لیے بھی امداد چاہیے۔
اور، جیسا کہ میں نے آج صبح کہا – اور میں پھر دہراتا ہوں – یہ یکجہتی یا سخاوت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں، مجھے ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بارے میں چند الفاظ کہنے کی اجازت دیں۔
میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملکہ برطانیہ کے اہل خانہ اور برطانیہ اور وسیع تر دولت مشترکہ کے عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
ملکہ الزبتھ سکون، وقار اور احترام کی اقدار کی بہترین مثال تھیں۔عالمی سطح پر ان کی ہمیشہ تسلی بخش موجودگی رہی۔
آپ کا شکریہ !
سوال: [صنعتی ممالک کی تاریخی پالیسیوں کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں اضافے اور اس کے بدلے میں نقصانات کے معاوضے کے بارے میں[
ایس جی: ٹھیک ہے، یہ واضح ہے کہ دنیا میں بہت سے ممالک (ماحولیاتی تبدیلی کا شکار) ہیں - ہم تقریبا 15 زیادہ خطرے کا شکار ممالک کا حساب لگاتے ہیں - یہ ممالک خاص طور پر کمزور ہیں اور پہلے سے ہی ماحولیاتی تبدیلی کے سلسلے میں بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی مستقبل کا مسئلہ نہیں ہے، آب و ہوا کی تبدیلی آج کا مسئلہ ہے۔ یہ ہو رہا ہے، لوگ تکلیف میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی گفتگو میں کہا، اور اب میں پھر دہراتا ہوں، تباہی اور نقصان کے سوالات پر سنجیدگی سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ بحث جو مجھے امید ہے کہ قاہرہ میں سی او پی میں ہوگی ، امید ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی طرف سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کو لچک پیدا کرنے اور اپنانے کے لئے ایک موثر تعاون کا ذریعہ بنے گی۔ یہ ایسے حالات ہیں جو دوسروں نے پیدا کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سخاوت کا معاملہ نہیں ، یہ انصاف کا معاملہ ہے۔
سوال: [کیا فلیش اپیل کافی ہو گی؟]
ایس جی: جب دنیا میں کہیں بھی کوئی بحران ہوتا ہے تو ، ہم اگلے چند دنوں میں ایک فلیش اپیل جاری کرتے ہیں اور فلیش اپیل کا مقصد اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے فنڈز جمع کرنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد کام شروع کرنے کے لئے کچھ فنڈز اکٹھا کرنا ہے۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔
فلیش اپیل اور خاص طور پر حکومت پاکستان کو براہ راست بین الاقوامی برادری کی معاونت ملنی چاہیے۔
ہم نے آج اس کے انتظام کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے ، اور ہم اسے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر منظم کرنے کے لئے تیار ہیں - یقینا ، یہ پاکستانی حکومت کا فیصلہ ہے - جیسے ہی ضروریات کا واضح اندازہ ہوتا ہے - زیادہ تر ریلیف کے سلسلے میں بلکہ آفات میں حقیقی تخفیف اور تعمیر نو کے سلسلے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت ہے جہاں پاکستان کے لیے اربوں ڈالر اکٹھے ہو سکیں، لیکن ہمیں اہم مسائل پر توجہ مرکوز رکھنا ہو گی۔
فلیش اپیلز ایک ایسی چیز ہے جسے ہم دنیا میں کسی بھی طرح کے ناگہانی حالات میں صرف ایجنسیوں کو پہلے اقدام کے طور پر کم از کم ریلیف شروع کرنے کے قابل بنانے کے لیے لانچ کرتے ہیں۔
سوال: [ کیا ڈونر کی کانفرنس میں دوسری حکومتیں فراخدلی کا ثبوت دیں گی؟]
ایس جی: یقینا، میں اس حقیقت سے پریشان ہوں کہ سرکاری ترقیاتی امداد میں کمی ہو رہی ہے۔ ہمارے متعدد آپریشنز شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک عام آفت نہیں ہے، یہ ایک بے مثال واقعہ ہے۔
لہذا، مجھے لگتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کو بین الاقوامی ایجنڈے کی صف اول میں دوبارہ ڈالنے میں مدد ملے گی۔ موسمیاتی تبدیلی بین الاقوامی ایجنڈےسے ہٹ رہی ہے، نہ صرف سیاسی گفتگو میں بلکہ میڈیا میں بھی اسے جگہ نہیں مل رہی۔ اور اسے اپنے قومی ایجنڈے میں دوبارہ شامل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی ہمارے وقت کا فیصلہ کن مسئلہ ہے۔ اور اس کی بنیاد پر مجھے امید ہے کہ ایک کانفرنس ، اس حوالے سے کم از کم شعور کو بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گی، کیونکہ تباہی بالکل واضح نظر آ رہی ہے۔ ایسی کانفرنس میں ہم دکھا سکیں گے کہ لوگ کام کرتے ہیں اور اس تعاون کو متحرک کرنے کے لیے کس طرح کے تعاونکی ضرورت ہے۔
یہ مدد صرف ان سیلابوں کے بارے میں نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مون سون ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں، گلیشیئرز کا پگھلنا جاری رہے گا اور کئی سالوں تک اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ لہٰذا ہمیں پاکستان کی مستقل معاونت کرنے کی ضرورت ہے، صرف موجودہ بحران کے لیے ہی نہیں بلکہ مستقبل کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
سوال: [پاکستان کے قرض معاف کیے جانے کے امکان کے بارے میں]۔
ایس جی: ایسا ہو سکتا ہے اور میں اس کے بارے میں ہمیشہ بات کرتا ہوں، بالخصوص کووڈ کے دنوں میں بھی میں یہی کہتا آیا ہوں۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے قرضوں میں ریلیف کے مؤثر میکانزم کی ضرورت ہے جو مالی تباہی کے دہانے پر ہیں۔
جیسا کہ آپ کو یاد ہے، ہمارے پاس صرف ایک اقدام موجود ہے اور وہ بھی ترقی پذیر ممالک کے لئے قرض کی ادائیگی کو دو سال کے لئے معطل کرنے تک محدود ہے، لیکن قرضوں میں ریلیف کا کوئی میکانزم نہیں ہے، ایک فریم ورک ہے جو بہت سست ہے، اورصرف تین ممالک نے اس پر عمل کیا ہے کیونکہ یہ بالکل مؤثر نہیں ہے۔ اور قرضوں میں ریلیف کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، خاص طور پر درمیانی آمدنی والے ممالک کے لئے۔
اور یہ وہ چیز ہے جسے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاسوں ، جی 7 اور جی 20 کے ایجنڈے میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں اس مہم کو نہیں روکوں گا کیونکہ میرے خیال میں یہ بالکل ضروری ہے۔ ڈیفالٹ رکھنے والے ممالک کے ایک گروپ کی طرف سے دنیا کے لئے خطرات انتہائی زیادہ ہوں گے۔
ہم نے آج کچھ تخلیقی خیالات پر تبادلہ خیال کیا ہے جو ہم ماحولیاتی تبدیلی کے مختلف منظرناموں میں میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان خیالات میں سے ایک، جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے اور جسے ہم فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ موافقت میں سرمایہ کاری کے لیے قرض کی فراہمی کے حوالے سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک، اپنے قرض کی ادائیگی کے بجائے، اس رقم کو سبز معیشت پر منتقلی کے لیے سرمایہ کاری میں استعمال کرے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف مدافعت کی تعمیر میں لگائے۔
یہ خیال چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ریاستوں کے ساتھ ہماری بات چیت کے دوران سامنے آیا تھا کیونکہ آپ جانتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے کچھ ایسے جزائر پر آباد ہیں اور ان میں سے کچھ کے مکمل ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ اور ہم ان لوگوں کے سامنے ایک مضبوط مہم چلا رہے ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں قرضوں میں ریلیف اور ہماری ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کارکردگی کو بہتر طور پر اپنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تاکہ اس طرح قرضے کی ادائیگی کے بجائے ان رقومات کو سبز معیشت پر سرمایہ کاری میں لگایا جائے۔
سوال: [پاکستانی کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ مدد کرے گا؟]
ایس جی: اگر کوئی ایسی چیز ہے جس پر اقوام متحدہ اور خاص طور پر میں گزشتہ چند سالوں سے بہت زور دے رہا ہوں تو وہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک پر لازم ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے سلسلے میں پیرس معاہدے میں اپنے وعدوں کو مکمل طور پر پورا کریں۔
ہم اس مہم کے پشتیبان ہیں جو موافقت کو سنجیدگی سے اپنانے کے لئے بنائی گئی تھی - آئیے دیکھتے ہیں کہ اس وعدے کا کیا ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو موافقت کو اپنانے کے لیے ہر سال 40 ارب ڈالر فراہم کرنے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ ہم سی پی او ایجنڈے میں ماحولیاتی تبدیلی سے تباہی اور نقصانات نیز امداد کے وعدے کو صف اول کے ایجنڈے میں شامل کروانا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ فیصلے اقوام متحدہ نہیں کرتا۔ یہ خود رکن ممالک اور یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہیں جو ایک خاص حد تک بین الاقوامی مالیاتی نظام کو چلاتے ہیں۔ اور اگر کوئی ایسی بات ہے جو میں بلند آواز اور واضح طور پر کہہ رہا ہوں تو وہ یہ ہے کہ ہمارا عالمی مالیاتی نظام اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔
سوال: [جموں و کشمیر کے بارے میں۔ کیا سیکرٹری جنرل ثالثی کے لیے تیار ہیں؟]
ایس جی: حقیقت یہ ہے کہ اگر میں کچھ کر سکتا ہوں توجس کی میں ہمیشہ پیشکش کرتا رہوں تو وہ ثالثی کی پیشکش ہے۔
لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بھارتی فریق سمجھتا ہے کہ یہ دوطرفہ معاملہ ہے جسے صرف پاکستان اور بھارت ہی حل کریں گے اور اقوام متحدہ کی ثالثی کو اب تک قبول نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف، ہم اس سلسلے میں بہت فعال رہے ہیں کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہئے۔
دیکھیں آن لائن رسائی کے لئے: تازہ ترین بیانات