تباہی کا پیمانہ بہت بڑا ہے، ان گنت شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ایک جیسی صورت حال ہے۔
جب فاطمہ گل کا گھرحالیہ سیلاب کی زد میں آیا، تو سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ وہ اپنا سامان اور کھانے پینے کی چیزیں تک بچانہ سکیں۔ معمربیوہ نے اپنا سب کچھ کھودیا کیونکہ خیبرپختونخوا میں ان کا ضلع صوابی سب سے پہلے سیلاب کی زد میں آیا،سیلابی ریلے ان کے گاؤں کو بہالے گئے۔
فوٹو: یواین ویمن/عزیزاللہ
نم آنکھیں لیے فاطمہ گل بولیں ''سیلاب کی اس اچانک افتاد نے میری زندگی میں سب کچھ تباہ کردیا۔ میرے پاس نہ برتن ہیں اور نہ کپڑے۔میری چارپائی اور میرا گھرتباہ ہوگیا۔'' فاطمہ گل پہلے ہی زکوۃ پرگزربسرکرتی تھیں لیکن اب اچانک ا نہیں ہرشے سے محروم ہوناپڑگیا۔وہ اپنا گھردوبارہ تعمیرکرنے کے قابل نہیں ہیں، ان کے پاس تو گزربسر کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں ۔
فاطمہ گل پاکستان میں آنے والے ریکارڈ سیلاب سے متاثر ہونے والی بے شمار خواتین میں سے ایک ہیں۔ قدرتی آفت کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت غریب لوگوں کی ہے بالخصوص خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ثابت ہوا کہ پاکستان کو کوئی استثنا ءحاصل نہیں ہے۔ جون سے جاری مون سون کی بارشوں سے ملک کا ایک تہائی رقبہ زیرآب آچکا ہے، چوبیس کروڑ میں سے تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کم وبیش 64 لاکھ افراد کو مدد ومعاونت کی ضرورت ہے ۔
اس طرح کی آفات بالخصوص خواتین،لڑکیوں اور معذور خواتین کے لیے بہت مشکلات لے کرآتی ہیں۔انہیں انسانی امداد تک رسائی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ،ایسی آفات کے دوران خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات اور مسائل بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ۔
اقوم متحدہ ادارہ برائے خواتین پاکستان نے فاطمہ جیسی خواتین کو سیلاب سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران اپنی ترجیحات میں رکھا۔اب تک اقوم متحدہ ادارہ برائے خواتین نے صوابی میں سیلاب متاثرہ خواتین کو فوری ریلیف کے لیے ضروری اشیاء بشمول خیمے،باورچی خانے میں استعمال ہونے والے برتن،طبی امداد اور سینٹری مصنوعات فراہم کی ہیں۔اس کے علاوہ انتہائی ضرورت مند لڑکیوں ،گھروں کی سربراہ خواتین ،ذرائع آمدن سے محروم خواتین اور معذور خواتین کو فی کس 20ہزار پاکستانی روپے (91امریکی ڈالر) کی نقد امداد بھی فراہم کی ہے۔
فاطمہ گل کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون رومانیہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، ان کی پرائیویسی بالکل نہیں رہی۔رومانیہ بی بی کاکہنا ہے کہ '' سیلاب میں ان کا آدھے سے زائد گھربہہ گیا۔'' میں راتوں کو سو نہیں سکتی کیونکہ سیلاب میرے گھر کی دیواریں بہا کے لے گیا۔میں اپنی ٹوٹی دیواروں کی جگہ بستروں کی چادریں لٹکاتی ہوں ''۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے خواتین آنے والے دنوں میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے اپنی سرگرمیوں کا رخ جان بچانے والی سرگرمیوں کی جانب موڑنا چاہتا ہے ،جس میں سندھ، بلوچستان کے صوبوں،گلگت بلتستان میں امدادی کارروائیاں کرنا شامل ہے۔ ان امدادی سرگرمیوں میں عارضی خواتین سنٹروں کا قیام،صنفی تشدد(GBV) کی روک تھام اور اس کے سدباب کے اقدامات بشمول نفسیاتی مددکی فراہمی جیسے منصوبے شامل ہیں۔
فوٹو: یواین ویمن/عزیزاللہ
سٹوری:اقوام متحدہ ادارہ برائے خواتین(یو این ویمن)