ہمارے ہیروز ۔۔ سیلاب زدہ علاقوں کی کہانیاں
پاکستان میں سیلاب میں ''ماحولیاتی تباہی'' کا سامنا کرنے والے امدادی کارکنوں اور عام لوگوں کی جانب سے انسانی عزم وہمت اورجانبازی کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین سیلابی پانی میں گھری ہوئی ہے۔ سندھ کا ایک تہائی حصہ (آبادی بشمول رقبہ) تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔ 1400سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے اور3کروڑ30لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں اور اپنی تمام قیمتی اشیاء کھودی ہے۔ مال مویشی اورکھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوچکی ہیں۔ ان کے پاس نہ کھانا ہے اور نہ پینے کا پانی اور نہ ہی سرچھپانے کے لیے سائباں۔انہیں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں ،ڈینگی اورغذائی قلت جیسے سنگین مسائل کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہیں صحت عامہ اور تعلیم جیسی سہولیات تک کوئی رسائی حاصل نہیں اورجو زندگی وہ گزاررہے تھے، اب اس سے محروم ہوچکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کے بقول '' یہ اعدادوشمارکی بات نہیں بلکہ یہ ان لوگوں اور کسانوں کی بات ہے جنہیں اپنی فصلوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں، یہ ان لوگوں کی مسئلہ ہے جنہیں اپنے پیاروں کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑرہا ہے، یہ ان کی بات ہے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے آشیانے بہہ گئے، انہیں اپنے مویشیوں سے ہاتھ دھونا پڑے، یہ ان کی بات ہے جن کے پاس اپنے قرض ادا کرنے کے لیے اب کوئی رقم نہیں جن سے انہوں نے دوبارہ کاشتکاری کے قابل ہونا تھا۔ یہ ان لوگوں کی بات ہے جنہیں آپ میں سے ہرشخص بچانے کی کوشش کررہا ہے، خوفناک سیلاب سے محفوظ رہنے میں ان کی مدد کررہا ہے۔''
''میں یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے آئی ہوں، یہ میرا جنون ہے''۔ ڈاکٹر سمیرا عباسی
ڈاکٹرسمیراعباسی سیلاب کے وقت سے سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ ہیڈکوارٹراسپتال میں میڈیکل فیلڈآفیسر کے طورپرفرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ تین بچوں کی ماں ہونے کے ناطے انہیں اس امرکا ادراک ہے کہ صورت حال ان کے لیے کتنی کٹھن ہے۔ اسپتال سے گھر دُور ہونے کی وجہ سے انہیں سیلابی پانی سے گزرکرآنا ہوتا ہے ۔ یہ سیلانی پانی اکثران کے آٹورکشہ میں بھی آجاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ان کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ ایک وقت تھا،جب ان کا اپناگھرسیلاب کی زد میں آگیا تھا لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے،انہوں نے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے سیلاب متاثرین کی طبی ضروریات کا خیال رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میں یہاں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے آئی ہوں، یہ میرا جنون ہے''۔
''میں نے تقریباً 300 قیمتی جانیں بچائیں''۔ جناب محمد شفا اریجو
جب سیلاب کی بے رحم موجیں لاڑکانہ سے ٹکرائیں تو سیکرٹری یونین کونسل انواراداب جناب محمد شفا اریجو بے خوف ہوکر بے لوث جذبے کے ساتھ لوگوں کی مدد کےلیے آگے آئے۔انہوں نے منہ زور سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والے 300 جھگی نشینوں کو اپنی جان خطرے میں ڈال کروہاں سے نکالا۔ پھرکشتیوں کی مدد سے انہیں قائد عوام انجینئرنگ یونیورسٹی میں منتقل کیا۔ انہیں سیلاب سے متاثرہ ہزاروں لوگوں کو کھانا فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ۔
ڈاکٹر سمیرا عباسی ،شفا اریجواوران جیسے بہت سے لوگوں نے اس غیر معمولی بحرانی کیفیت میں عزم وہمت، ایثار اوریکجہتی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا ہے۔ ہیبت ناک سیلابی ریلوں نے ہرسوتباہی کی داستانیں رقم کیں لیکن اس عرصے میں ان بہادرمردوخواتین نے اپنی ہمت وحیثیت سے بڑھ کرکام کیا، اور بروقت امداد کے ذریعے ہزاروں قیمتی جانوں کو بچایا۔
ساری دنیا کوان بہادرمردوخواتین کے دست وبازو بننا چاہیے۔ دنیا کو ان معصوم لوگوں کی مددکے لیے آگے آنا ہوگا جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ایسی تباہی کا سامنا ہے ،جس کے لانے میں ان کا کوئی بھی کردار نہیں۔