پاکستان میں بہتر نظامِ تعلیم کی ترویج
شمسی توانائی پاکستان میں اسکول کے بچوں کے لیے ایک امید افزا آغاز میں مدد کر رہی ہے۔
یہ کوہاٹ میں واقع ایک مخلوط پرائمری سرکاری اسکول- جی پی ایس کاہی بزید خیل میں ماہِ جون کے موسمِ گرما ، بروز جمعرات ایک روزمرہ کی دوپہر ہے۔ ضلع کوہاٹ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوب میں واقع ہے۔ مختلف کلاسوں میں طلباء لگن کے ساتھ اپنے اپنے نصاب کے مطابق حصولِ علم میں مصروف ہیں۔ ان دنوں علاقے کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے لیکن کمروں میں تنصیب کردہ پنکھوں اور بلب کی وجہ سے یہاں کا ماحول خوشگوار اور روشن ہے۔ صرف دو سال قبل ایسے موسم کی شدت کے باعث اسکول کی انتظامیہ کے پاس ان دنوں اسکول بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ انتہائی گرمی کے دنوں میں حالات اسکول کے طلباء اور اساتذہ دونوں کے لیے خطر ناک حد تک ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔
جی پی ایس کاہی بزید خیل میں پڑھانے والے ایک استاد عابد سعید بتاتے ہیں "یہاں شدید گرمی کے باعث ہمارے حالات بہت سخت اور دشوار تھے ۔ صرف ہم یعنی عملے کے ارکان اور یہاں زیرِ تعلیم بچے ان مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں جن کا ہم نے سامنا کیا۔"
ماضی میں شدید گرمیوں کے دوران جب اسکول کھلے ہوتے تھے تو عابد اپنی کلاس کے بچوں کو کمرے سے باہر لے جا کر درخت کے سائے تلے تدریس کا عمل جاری رکھتے تھے۔ ان وجوہات کے باعث بچے اسباق سے اپنی توجہ کھو دیتے جس کا نتیجہ اسکول سے بڑی تعداد میں غیر حاضری کی صورت میں نکلتا تھا۔
پاکستان کے زیادہ تر سرکاری سکولوں میں بچوں کے کم اندراج کے علاوہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے والوں کی کثیر شرح ایک مسئلہ ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں خاص طور پر شدید ہے، جہاں دیہی اسکولوں میں اکثر بجلی جیسی اہم بنیادی سہولیات کا قفدان ہے۔
اصلاحات کا نفاذ
جی پی ایس کاہی بزید خیل صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلا اسکول تھا جہاں 2019 میں کم لاگت پر تیار کردہ بجلی کی سہولت فراہم کی گئی۔ یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں 1,200 سے زائد اسکولوں میں تعلیم کی خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے ایک اہم منصوبے کا حصہ تھا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم شہرام خان تراکئی کہتے ہیں، "یہ منصوبہ خطے میں ابتدائی اور ثانوی درجہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کا حصہ ہے۔ ہم بچوں کے پاس اسکول میں حصولِ تعلیم کے لیے مناسب حالات اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔"
اسکولوں میں طلباء کی حاضری کے تناسب میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جہاں نئے داخلوں میں پانچ فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جی پی ایس کاہی بزید خیل میں یہ شرح مزید بہتر ہے جہاں 2018 میں 227 طلباء کے مقابلے میں 2021 کے دوران طلباء کی تعداد 265 ہوچکی تھی۔
اسکول کی ایک ننھی سی طالبہ ، فریال کا کہنا ہے، "اب ہمیں اسکول آکر پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب پنکھے چلتے ہیں تو سبق یاد کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔"
اور اسکولوں کے اساتذہ کے مطابق روشن اور ٹھنڈے کلاس روم بہتری کا باعث بنے ہیں، جہاں ان کے طلباء کے رویوں اور تعلیمی نتائج میں نمایاں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عابد نے بتایا، "ہم بہت سکون سے اپنی تدریسی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں ۔ بچے بہت جوش و خروش کے ساتھ اسکول آتے ہیں اور ہمارے تعلیمی معیار میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔"
ماحول دوست توانائی
اگرچہ ان اسکولوں میں بجلی کی فراہمی طلباء کو حصولِ تعلیم میں ایک بہتر ماحول فراہم کرنے میں مدد کر رہی ہے، اس بجلی کا ایک کم خرچ اور پائیدار ذریعے سے حصول بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ان اسکولوں کے لیے موجودہ ذریعہ توانائی ، روایتی گرڈ سے حاصل کردہ بجلی کے مقابلے میں تقریباً 2,250 ٹن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کرے گا ۔
پاکستان میں درجہ حرارت میں عالمی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ اضافے کا سامنا ہے اور یہ ملک شدید موسمی تغیرات سے تیزی سے متاثر ہو رہا ہے ۔ یہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پائیدار اور لچکدار بنیادی ڈھانچے کی طرف منتقلی کی فوری ضرورت واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے۔
یو این اوپس کی پاکستان میں سربراہ میریسیا زپاسنِک کہتی ہیں، "پاکستان کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جس کے باعث مساوی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔"
یو این اوپس کے پروجیکٹ منیجر – بینوئٹ روزنوئر نے کہا"پاکستان کے دیہی علاقوں میں قدرتی ذرائع سے تیار کردہ بجلی کے حصول میں مشکلات حائل ضرور ہیں۔ اس کے لیے ہم نے دور دراز اور الگ تھلگ مقامات کا انتخاب کر کے مجموعی طور پر دس ہزار سے زائد سولر پینلز وہاں پہنچائے۔ ان اضلاع میں شمسی توانائی کی تیاری انتہائی کم ٹیکنالوجی والے ماحول میں اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کاحصول تھا۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے ٹھیکیداروں کی تربیت، مقامی صلاحیت میں اضافےاور تکنیکی مسائل کے حل کے لیے ناقابل یقین کوششوں کی ضرورت تھی۔"
بینوئٹ کے مطابق ان کی کوششیں نتیجہ خیز رہیں۔ اسکولوں کو اب نہ صرف بجلی کا ایک باسہولت ذریعہ فراہم کر دیا گیا ہے، بلکہ اسکول کی انتظامیہ اب خود شمسی نظام کو چلانے اور اس کی بنیادی دیکھ بھال کی صلاحیت کی حامل ہو چکی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچے آنے والے سالوں تک بہتر تعلیمی حالات سے مستفید ہوتے رہیں۔
منصوبے کی تفصیل
سولر اسکولز پراجیکٹ کو مالی اعانت، برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) اور سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے ذریعے فراہم کی گئی ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اسکولوں میں زیرِ تعلیم تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار طلباء اور وہاں تدریسی ذمہ داریاں انجام دینے والے چار ہزار سے زائد اساتذہ مستفید ہو رہے ہیں۔
یو این اوپس نے صوبہ خیبرپختونخوا کے ایلی منٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ شراکت میں صوبے کے سات انتہائی پس ماندہ اضلاع: بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کرک، کوہاٹ، لکی مروت اور ٹانک کے 1,240 اسکولوں میں شمسی توانائی کے آلا ت کی خریداری، وہاں تک ترسیل اور تنصیب کا بندوبست کیا۔
یو این اوپس کے 8.5 امریکی ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں پیرنٹ – ٹیچر کونسلز کے چار ہزار سے زائد ارکان کو شمسی توانائی کے آلات کو چلانے اور ان کی روز مرہ تکنیکی دیکھ بھال کرنے کی تربیت کی فراہمی بھی شامل تھی۔
کہانی: UNOPS